Jigar Barelvi

جگر بریلوی

  • 1890 - 1976

جگرمرادآبادی کے ہمعصر،مثنوی "پیام ساوتری" کے لیے مشہور،"حدیث خودی "کے نام سے سوانح حیات لکھی

Prominent contemporary of Jigar Moradabadi

جگر بریلوی کی غزل

    جذب دل کارگر نہیں ہوتا

    جذب دل کارگر نہیں ہوتا اس کے دل پر اثر نہیں ہوتا درد دل میں اگر نہیں ہوتا بات میں کچھ اثر نہیں ہوتا نہ کرے ترک پیروی جب تک راہرو راہبر نہیں ہوتا رنگ لاتی نہیں محبت کچھ سوز جب تک شرر نہیں ہوتا نہیں کھلتا در نشاط ابد چاک جب تک جگر نہیں ہوتا بڑھتے جاتے ہیں راہ میں کانٹے یا رب آگے ...

    مزید پڑھیے

    برائی کیا ہے تم الزام دو برائی کا

    برائی کیا ہے تم الزام دو برائی کا بشر ہوں میں مجھے دعویٰ نہیں خدائی کا کیا ہے سجدہ کبھی یا نہیں کیا خوش ہوں جبیں پہ داغ نہیں سجدۂ ریائی کا کسی کے عشق میں دیوانے ہم نہ گر ہوتے تو راز کھل نہیں سکتا تھا پارسائی کا ذرا تم اب کہیں چھپ جاؤ ہر تڑپ لو ہیں کہ یاد آیا ہے مجھ کو مزا جدائی ...

    مزید پڑھیے

    لیجئے تابانیٔ عالم کے ساماں ہو گئے

    لیجئے تابانیٔ عالم کے ساماں ہو گئے دل کے ذرے اڑ کے ہر جانب پریشاں ہو گئے درد تنہائی سے مر جانا تو کچھ مشکل نہ تھا کیا کہیں غم سے مگر کچھ عہد و پیماں ہو گئے التفات دوست کا ممکن نہیں کوئی صلہ کم ہے جان و دل جو صرف شکر احساں ہو گئے تجھ سے کیا لیں انتقام اے خاک بے برگ و نوا وہ کہاں ...

    مزید پڑھیے

    دل کو پھر امید گرمانے لگی

    دل کو پھر امید گرمانے لگی پھر مجھے دنیا نظر آنے لگی دل پہ ڈالی ہے کسی نے پھر نگاہ سانس پھر آنے لگی جانے لگی نقش پھر جمنے لگا تدبیر کا عقل پھر کچھ دل کو سمجھانے لگی نزع میں آنے لگی پھر کس کی یاد آرزوئے زیست تڑپانے لگی ہو چلا ہے پھر کسی کا انتظار کھنچ کے جان آنکھوں میں پھر آنے ...

    مزید پڑھیے

    دل سے طاعت تری نہیں ہوتی

    دل سے طاعت تری نہیں ہوتی ہم سے اب بندگی نہیں ہوتی ایسی کچھ بے دلی سی غالبؔ ہے کہ تری یاد بھی نہیں ہوتی دل نہ جب تک ہو ایک شعلۂ عشق زندگی زندگی نہیں ہوتی حیف وہ جس سے شدت غم میں خواہش مرگ بھی نہیں ہوتی راس آتی نہیں کوئی تدبیر یاس جاوید بھی نہیں ہوتی ضبط غم بھی محال ہے ہم سے اور ...

    مزید پڑھیے

    محبت تم سے ہے لیکن جدا ہیں

    محبت تم سے ہے لیکن جدا ہیں حسیں ہو تم تو ہم بھی پارسا ہیں ہمیں کیا اس سے وہ کون اور کیا ہیں یہ کیا کم ہے حسیں ہیں دل ربا ہیں زمانے میں کسے فرصت جو دیکھے سخنور کون شے ہیں اور کیا ہیں مٹاتے رہتے ہیں ہم اپنی ہستی کہ آگاہ مزاج دل ربا ہیں نہ جانے درمیاں کون آ گیا ہے نہ وہ ہم سے نہ ہم ...

    مزید پڑھیے

    بگڑیں وہ ہم سے کہ ہم ان سے سب میں اک لذت ہوتی ہے

    بگڑیں وہ ہم سے کہ ہم ان سے سب میں اک لذت ہوتی ہے جینے میں بڑا لطف آتا ہے جب دل سے محبت ہوتی ہے ہم کس سے پوچھیں تم ہی کہو کچھ کام یہ جینا آیا بھی ہم لوٹتے ہیں انگاروں پر کچھ تم کو مسرت ہوتی ہے دوزخ کو یہی جنت کر دے جنت کو یہی دوزخ کر دے ہم تجھ کو بتائیں کیا ہم دم کیا چیز محبت ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    موت آئی کتنی بار نئی زندگی ہوئی

    موت آئی کتنی بار نئی زندگی ہوئی نکلی مگر نہ پھانس جگر میں چھپی ہوئی اب ہو بھی کوئی مائل لطف و کرم تو کیا ہوتی نہیں شگفتہ طبیعت بجھی ہوئی موسم یہی بہار کا ہے عشق کے لئے آتی نہیں پلٹ کے جوانی گئی ہوئی کچھ زہر کا نشہ ہے تو کچھ تھرتھری سی ہے رگ رگ میں آج ہے کوئی شے پیرتی ہوئی آب ...

    مزید پڑھیے

    کسی کو دیکھتے کیوں آہ روتے

    کسی کو دیکھتے کیوں آہ روتے جو بس چلتا تو ہم پیدا نہ ہوتے وہ اشک اے درد دل آنکھوں میں ہوتے جو داغ معصیت دامن سے دھوتے سحر ہونے کو آئی روتے روتے کہیں وہ آستاں ملتا تو سوتے جھکی جاتی ہیں آنکھیں بار غم سے کسی آغوش میں سر رکھ کے سوتے نظر دیکھا کیے ان کی ہمیشہ یہی حسرت رہی ہم جان ...

    مزید پڑھیے

    نیند کے بدلے تسلی ہی سہی آتی تو ہے

    نیند کے بدلے تسلی ہی سہی آتی تو ہے دل سے باتیں کرتے کرتے رات کٹ جاتی تو ہے کیا اسی کا نام ہے سوز محبت ہم نشیں ایک بجلی سی مری رگ رگ میں لہراتی تو ہے اس سے بڑھ کر اور کیا تاثیر غم کی چاہئے دل کی آہوں سے جگر کی چوٹ چھل جاتی تو ہے کیا یہی ہے اے محبت ہستئ دل کا مآل اک لہو کی بوند مژگاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4