Jelani Kamran

جیلانی کامران

ممتاز پاکستانی دانشور اور ثقافتی نقاد

One of the most prominent Pakistani scholars and cultural critics.

جیلانی کامران کی نظم

    نظم

    بے ثبات کی دنیا موسموں میں اتری ہے پھول بن کے آئی ہے گلشنوں میں اتری ہے آنسوؤں میں اتری ہے دل میں کچھ برس جی کر آنگنوں میں اتری ہے چل دیئے خطا بن کر عشق کی حکایت کے لوگ بے وفا بن کر جسم و جاں کے پردے میں قیس کی قبا بن کر راستے کی مٹی پر عکس ہیں دعاؤں کے کچھ قدم ہیں غیروں کے کچھ ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    کبھی اگر تم زمیں سے گزرو زمیں جو ہم سب کی سلطنت ہے تو جس طرف اک کلی کے مہرے پہ چاندنی اپنا نام خود ہے وہاں ذرا دیر کے لیے اپنی عمر کی رفت و بود روکو زمیں کو لمحوں کی بادشاہت میں دیکھنا چاہو اس طریقہ سے آرزوؤں کے ساتھ دیکھو کہ جس طرح لوگ اپنے محبوب کے بدن کو وفات کے وقت دیکھتے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    ننھے دیکھ وہ پھول ہے جس پر تتلی ہے اپنے گھر سے تجھ کو دیکھنے نکلی ہے پھول سے وہ خوشبو کی مہک بنائے گی پھر وہ خوش خوش تجھ سے ملنے آئے گی ننھے پھول اس نے تجھ کو دیکھا ہے تجھ کو دیکھ کے پیار سے میرا نام لکھا ہے اب وہ تیرے نام کی خوشبو لائی ہے اس نے سب کو تیری بات بتائی ہے ننھے دیکھ یہ ...

    مزید پڑھیے

    اے لاہور

    ترے درختوں کی ٹہنیوں پر بہار اترے تری گزر گاہیں نیک راہوں کی منزلیں ہوں مرا زمانہ نئے نئے موسموں کی خوشبو ترے شب و روز کی مہک ہو زمین پر جب بھی رات پھیلے کرن جو ظلمت کو روشنی دے تری کرن ہو پرندے اڑتے ہوئے پرندے ہزار سمتوں سے تیرے باغوں میں چہچہائیں وہ رات جس کی سحر نہیں ہے وہ تیرے ...

    مزید پڑھیے

    بہار آ رہی ہے

    ہمارے مکانوں سے اوپر سے کونجیں جنوبی علاقے سے آتی ہوئی چاند تارا بناتی ہوئی آج گزریں گی ان کے گزرنے مسافت میں روپوش ہونے سے ہم جان لیں گے کڑاکے کی سردی گئی ہے بہار آ رہی ہے یوں ہی گود ماں کی لڑکپن جوانی بڑھاپا بہار آ رہی ہے انہی رخ بدلتے ہوئے راہ جاتے ہوئے قافلوں کو کوئی میری ...

    مزید پڑھیے

    بغیر عنوان کے

    دن آیا نہ ملبوس بدل کے نہ نکھر کے اور لوگ بھی نکلے نہ شگفتہ نہ چمکدار تب میں نے سوچا مرے کاغذ کے غبارے نہ ناچیں تو بہتر ہے اک عمر کا صدمہ ہے بہت تلخ زمیں کو نہ سالگرہ آج مناؤں میں تو بہتر وہ بھی نہیں خوش اور نہ خوش دن کا گزر ہے اے عمر ترا سخت اکیلے کا سفر ہے تب میں نے کہا چاند اگر ...

    مزید پڑھیے

    پیغام

    پیغام ہوا لائی ہے نہ جانے کدھر سے پتوں پہ ابھر آئی ہے تحریر کدھر سے جو دیکھی ہے لائی ہے وہ تصویر کدھر سے اک راہ پہ وہ آیا ہے اک لمبے سفر سے محمل میں وہ بے خواب ہے عالم کی خبر سے کیا دیکھیے! کیا شکل ہوئی زیر و زبر سے اک وصل کے موسم میں جہاں جاگ اٹھا ہے گھر بار زمیں کون و مکاں جاگ ...

    مزید پڑھیے

    آخری رائے

    کل رات وہ آسمانوں سے اترا بہت خوش ہوا بہت خوش ہوا جیسے گہرے سمندر غضب ناکیوں میں اچھلتے ہیں یا آسماں پر فرشتے قبول عبادت پہ مسرور ہوتے ہیں اس نے کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہوا جو میں دیکھتا تھا وہ میں دیکھتا تھا جو وہ دیکھتا تھا وہ شیشے میں خود اس کا اپنا ہی چہرہ تھا ظاہر ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    قدم دو قدم چل کے تھک سا گیا ہے ہمارے مقدر کا انساں۔۔۔ درختوں نے اپنے کئی سارے پژمردہ پتے ہواؤں کے گھر سے بلائے ہیں تھکے ہارے رہرو پہ سایہ کریں اس کی خاطر شکستہ دلوں کا کوئی گیت سب مل کے گائیں! زمیں نے کہا ہے، یہ انساں نہیں تھا وگرنہ یوں رستے میں اپنے ارادے کی ہتک نہ کرتا یوں اپنے ...

    مزید پڑھیے

    قسمت کا پڑھنے والا

    میرے ہاتھ پہ لکھا کیا ہے عمر کے اوپر برق کا گہرا سایہ کیا ہے کون خفا ہے راہ کا بوڑھا پیڑ جھکا ہے چڑیاں ہیں چپ چاپ آتی جاتی رت کے بدلے گرد کی گہری چھاپ گرد کے پیچھے آنے والے دور کی دھیمی تھاپ رستہ کیا ہے منزل کیا ہے میرے ساتھ سفر پر آتے جاتے لوگو محشر کیا ہے ماضی حال کا بدلا بدلا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2