بغیر عنوان کے

دن آیا نہ ملبوس بدل کے نہ نکھر کے
اور لوگ بھی نکلے نہ شگفتہ نہ چمکدار
تب میں نے سوچا مرے کاغذ کے غبارے نہ ناچیں تو بہتر ہے
اک عمر کا صدمہ ہے بہت تلخ زمیں کو
نہ سالگرہ آج مناؤں میں تو بہتر
وہ بھی نہیں خوش اور نہ خوش دن کا گزر ہے
اے عمر ترا سخت اکیلے کا سفر ہے
تب میں نے کہا چاند اگر اپنے بدن کو
عورت کا بدن دے تو میں کانٹوں کے ترازو
دل دے کے بدل لوں
دل دے کے بدل لوں میں قیامت بھی گہن بھی
اور ان کے عوض اس سے کہوں آج کے دن تو
رک میری زمیں پر
تقدیر ہوا بن کے درختوں میں کھڑی ہے
اور میں اے عجب چیز چٹانوں پہ گرا ہوں