Jazib Quraishi

جاذب قریشی

جاذب قریشی کی غزل

    چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا

    چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا کیا شہر ہے اک شخص بھی جھوٹا نہیں ملتا چاہت کی قبا میں تو بدن اور جلیں گے صحرا کے شجر سے کوئی دریا نہیں ملتا میں جان گیا ہوں تری خوشبو کی رقابت تو مجھ سے ملے تو غم دنیا نہیں ملتا زلف و لب و رخسار کے آذر تو بہت ہیں ٹوٹے ہوئے خوابوں کا مسیحا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    صحرا کی دھوپ میں بھی شجر دیکھتے رہے

    صحرا کی دھوپ میں بھی شجر دیکھتے رہے کیا لوگ تھے دعا کا اثر دیکھتے رہے ہم اپنے جسم و جاں کو خزاں میں اتار کر گلنار موسموں کے ہنر دیکھتے رہے بارش کی عادتوں کا بدلنا محال تھا جلتے ہوئے ہم اپنے ہی گھر دیکھتے رہے جب بھی ترے بدن کی مہک ہم سفر رہی ہم بے چراغ شب میں سحر دیکھتے رہے اک ...

    مزید پڑھیے

    خیال بن کے وہ مجھ میں اتر بھی آتا ہے

    خیال بن کے وہ مجھ میں اتر بھی آتا ہے کہ رفتہ رفتہ دعا میں اثر بھی آتا ہے جسے تلاش ہے خوش رنگ آبشاروں کی وہ زخم زخم بدن لے کے گھر بھی آتا ہے چراغ بن کے چمکتا ہوں سنگریزوں میں سواد شب مجھے ایسا ہنر بھی آتا ہے نہ جسم و جاں کا اندھیرا نہ راستوں کا غبار جو تو ملے تو اک ایسا سفر بھی آتا ...

    مزید پڑھیے

    چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی

    چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی گلابوں کی مہک بکھری تو آواز شرار آئی بگولوں نے سفر میں آندھیوں کا آسماں دیکھا مگر اک فاختہ اپنے شجر تک بے غبار آئی جسے تو نے اجالا جان کر چہرے پہ لکھا تھا وہی شہرت تری رسوائیوں کے ہمکنار آئی اندھیروں میں مجھے خود اک ستارہ ڈھونڈنے آیا کہ ...

    مزید پڑھیے

    میرے لہجے میں مرے زخم کی گہرائی ہے

    میرے لہجے میں مرے زخم کی گہرائی ہے روشنی رات کے آنگن میں اتر آئی ہے پھر مجھے پیار کے ساحل پہ ٹھہرنا ہوگا پھر ترے دل کے دھڑکنے کی صدا آئی ہے در و دیوار پہ کچھ عکس اتر آتے ہیں میرے گھر میں عجب انداز کی تنہائی ہے صرف پھولوں میں نہیں ہیں تیرے چہرے کے رنگ ماہ نو بھی تری ٹھہری ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    جب تمہیں یاد کیا رنج ہوا بھول گئے

    جب تمہیں یاد کیا رنج ہوا بھول گئے ہم اندھیروں میں اجالے کی فضا بھول گئے تم سے بچھڑے تھے تو جینے کا چلن یاد نہ تھا تم کو دیکھا ہے تو مرنے کی دعا بھول گئے تیرے آنسو تھے کہ بے داغ ستاروں کے چراغ عمر بھر کے لئے ہم اپنی سزا بھول گئے ہم خیالوں میں تمہیں یاد کئے جاتے ہیں اور تم دل کے ...

    مزید پڑھیے

    اس کا لہجہ کتاب جیسا ہے

    اس کا لہجہ کتاب جیسا ہے اور وہ خود گلاب جیسا ہے دھوپ ہو چاندنی ہو بارش ہو ایک چہرہ کہ خواب جیسا ہے بے ہنر شہرتوں کے جنگل میں سنگ بھی آفتاب جیسا ہے بھول جاؤ گے خال و خد اپنے آئنہ بھی سراب جیسا ہے وصل کے رنگ بھی بدلتے تھے ہجر بھی انقلاب جیسا ہے یاد رکھنا بھی تجھ کو سہل نہ ...

    مزید پڑھیے

    شکستہ عکس تھا وہ یا غبار صحرا تھا

    شکستہ عکس تھا وہ یا غبار صحرا تھا وہ میں نہیں تھا جو خود اپنے گھر میں رہتا تھا عجیب شرط سفر تھی مرے لئے کہ مجھے سیاہ دھوپ میں روشن چراغ رکھنا تھا فصیل سنگ سے مجھ کو اتارنے آیا وہ اک ستارہ جو میں نے کبھی نہ دیکھا تھا نہ جانے کون سے موسم میں جی رہا تھا میں کہ میری پیاس تھی میری نہ ...

    مزید پڑھیے

    خواہش جاں کو آزمانا ہے

    خواہش جاں کو آزمانا ہے غم پکارے تو مسکرانا ہے حسن پھر لے رہا ہے انگڑائی پیار کو پھر فریب کھانا ہے اک ترے گیسوؤں کی چھاؤں میں ہر اجالا سمیٹ لانا ہے ان کو بارش کا خوف ہے جن کو اپنا گھر آگ میں جلانا ہے وہ چمک ہوں کہ رائیگاں ہو کر در و دیوار کو سجانا ہے آتے آتے قرار آئے گا رفتہ ...

    مزید پڑھیے

    دشت دعا میں تیرے پرستار رہ گئے

    دشت دعا میں تیرے پرستار رہ گئے شعلوں کے آبشار میں گلنار رہ گئے تیرے وصال و ہجر گئے تو گیا مگر تیری شباہتوں کے سب آزار رہ گئے جن پر ترے گلاب سے چہرے کے عکس ہیں میری نظر میں وہ در و دیوار رہ گئے وہ تو امیر شہر کی آغوش میں گیا اس کی گلی میں آئنہ بردار رہ گئے ہم نے لکھے حروف غم جاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3