Jazib Quraishi

جاذب قریشی

جاذب قریشی کی غزل

    صحرا میں کوئی سایۂ دیوار تو دیکھو

    صحرا میں کوئی سایۂ دیوار تو دیکھو اے ہم سفرو دھوپ کے اس پار تو دیکھو جلتا ہوں اندھیروں میں کہ چمکے کوئی چہرہ موسم ہیں عداوت کے مگر پیار تو دیکھو دفتر کی تھکن اوڑھ کے تم جس سے ملے ہو اس شخص کے تازہ لب و رخسار تو دیکھو کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں تم اپنے شکستہ در و دیوار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3