دشت دعا میں تیرے پرستار رہ گئے

دشت دعا میں تیرے پرستار رہ گئے
شعلوں کے آبشار میں گلنار رہ گئے


تیرے وصال و ہجر گئے تو گیا مگر
تیری شباہتوں کے سب آزار رہ گئے


جن پر ترے گلاب سے چہرے کے عکس ہیں
میری نظر میں وہ در و دیوار رہ گئے


وہ تو امیر شہر کی آغوش میں گیا
اس کی گلی میں آئنہ بردار رہ گئے


ہم نے لکھے حروف غم جاں ورق ورق
پڑھنے کو گیسو و لب و رخسار رہ گئے


زخم ہنر کے چاہنے والے نہیں رہے
خوش رنگ شہرتوں کے خریدار رہ گئے


جلنے لگے بدن تو برسنے لگا لہو
سورج کی راہ میں رسن و دار رہ گئے