Jazib Quraishi

جاذب قریشی

جاذب قریشی کی غزل

    جاں سوز غموں کا کہیں اظہار نہیں ہے

    جاں سوز غموں کا کہیں اظہار نہیں ہے زنداں میں بھی زنجیر کی جھنکار نہیں ہے ہر شخص کے چہرے پہ ہے کچھ ایسی علامت جیسے وہ کوئی پھول ہے تلوار نہیں ہے سب گہرے سمندر میں کھڑے سوچ رہے ہیں ہم میں کوئی سورج کا پرستار نہیں ہے زخموں کا لہو ہو کہ چراغوں کا اجالا کوئی بھی مرے شہر میں بیدار ...

    مزید پڑھیے

    جاں خود شناس ہو تو دعا میں اثر بھی ہے

    جاں خود شناس ہو تو دعا میں اثر بھی ہے میں جل رہا ہوں تجھ کو مری کچھ خبر بھی ہے شہر گلاب میں بھی کوئی ڈھونڈھتا رہا وہ دھوپ جس میں تیرے بدن کا شجر بھی ہے وہ عکس ہوں کہ مجھ میں ترے خال و خد نہیں تو میرا آئنہ بھی ہے آئینہ گر بھی ہے سوچوں تو زرنگار سے چہرے بھی ساتھ ہیں دیکھوں تو یہ سفر ...

    مزید پڑھیے

    جلا ہوں دھوپ میں اک شہر رنگ و بو کے لئے

    جلا ہوں دھوپ میں اک شہر رنگ و بو کے لئے ملی ہے تشنہ لبی سیر آب جو کے لئے ترے بدن کی مہک اجنبی سہی لیکن مرے قریب سے گزری ہے گفتگو کے لئے جنوں کا پاس وفا کا خیال حسن کا غم کئی چراغ جلے ایک آرزو کے لئے نہ آنسوؤں کے ستارے نہ قہقہوں کے گلاب کوئی تو جشن کرو اپنے ماہ رو کے لئے نئے سوال ...

    مزید پڑھیے

    چہروں کو تو پڑھتے ہیں محبت نہیں کرتے

    چہروں کو تو پڑھتے ہیں محبت نہیں کرتے کیا لوگ ہیں زخموں کی حمایت نہیں کرتے زنجیر کی جھنکار سے آباد ہیں زنداں ہم لذت گفتار کی حسرت نہیں کرتے خوش رنگ اجالوں کی برستی ہوئی بوندیں گرتی ہوئی دیوار سے نفرت نہیں کرتے پتھر کی فصیلوں میں انہیں نسب کیا جائے جو اپنی روایت سے بغاوت نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تھکن کی گرد سے خوش رنگ آہٹوں میں آ

    تھکن کی گرد سے خوش رنگ آہٹوں میں آ عداوتوں کو بھلا دے محبتوں میں آ نہ جانے کب سے ترا انتظار ہے مجھ کو کہ نیند توڑ کے بے خواب راستوں میں آ مرے خیال کے سائے ترے بدن کے عکس پکارتے ہیں ملاقات کی حدوں میں آ لپٹ گئی ہے مرے ذہن سے تری خوشبو میں جل رہا ہوں کہ بارش کے موسموں میں آ سفر کی ...

    مزید پڑھیے

    نیند آنکھوں میں رہے پھر بھی نہ سویا جائے

    نیند آنکھوں میں رہے پھر بھی نہ سویا جائے میں وہ پتھر ہوں کہ روؤں تو نہ رویا جائے اجنبی ہے ترے خوش رنگ بدن کی خوشبو اک ذرا لمس وفا تجھ میں سمویا جائے شب کے صحرا نے عجب پیاس لکھی ہے مجھ میں مجھ کو خورشید کے شعلوں میں ڈبویا جائے میں نے تنہائی میں جل کر بھی یہی چاہا ہے خوشبوؤں سے ...

    مزید پڑھیے

    ہم اپنے دل کی دھڑکن میں ایک تمنا لائے ہیں

    ہم اپنے دل کی دھڑکن میں ایک تمنا لائے ہیں تجھ سے پیار کی باتیں کرنے دور کہیں سے آئے ہیں اپنی آنکھیں راہ گزر ہیں اپنا چہرہ پتھر ہے تیرے وعدوں نے بھی مجھ کو کیا کیا خواب دکھائے ہیں تیرے آنچل کی چھاؤں سے شہر جنوں کی دھوپ تلک خوشبو بن کر بکھرے ہم غنچہ بن کر مرجھائے ہیں کوئی اجالا ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں

    جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں پھول رکھ جاتا ہے روشن دان میں گھر کے بام و در نئے لگنے لگے حسن ایسا تھا مرے مہمان میں تیرا چہرہ آئنے کے سامنے اور آئینہ نئے امکان میں عکس تیرے تیری خوشبو تیرے رنگ بس یہی کچھ ہے مرے سامان میں جسم و جاں کو تازہ موسم مل گئے جل گیا میں تیرے آتش دان ...

    مزید پڑھیے

    ٹکرا رہی ہیں تیز ہوائیں چٹان سے

    ٹکرا رہی ہیں تیز ہوائیں چٹان سے باہر نہ جاؤ اپنے شکستہ مکان سے وہ رات بھر چراغ کی لو دیکھتا رہا امکاں تراشتا ہے جو اپنے گمان سے عزم سفر ہے دھوپ کا صحرا ہے اور میں دریا تو ساتھ چھوڑ گیا درمیان سے وہ موسم خزاں کی تھکن ہی میں جل گئے باہر کھلے جو پھول ترے سائبان سے اک عمر ہو گئی ہے ...

    مزید پڑھیے

    دل کے زخم جلتے ہیں دل کے زخم جلنے دو

    دل کے زخم جلتے ہیں دل کے زخم جلنے دو ہم کو ٹھوکریں کھا کر آپ ہی سنبھلنے دو روشنی فصیلوں کو توڑ کر بھی آئے گی رات کی سیاہی کو کروٹیں بدلنے دو سائباں کی خواہش میں اک سفر ہوں صحرا کا جسم و جاں پگھلتے ہیں جسم و جاں پگھلنے دو پتھروں کی چوٹوں سے آئنو نہ گھبراؤ حادثوں کے آنگن میں زندگی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3