خواہش جاں کو آزمانا ہے

خواہش جاں کو آزمانا ہے
غم پکارے تو مسکرانا ہے


حسن پھر لے رہا ہے انگڑائی
پیار کو پھر فریب کھانا ہے


اک ترے گیسوؤں کی چھاؤں میں
ہر اجالا سمیٹ لانا ہے


ان کو بارش کا خوف ہے جن کو
اپنا گھر آگ میں جلانا ہے


وہ چمک ہوں کہ رائیگاں ہو کر
در و دیوار کو سجانا ہے


آتے آتے قرار آئے گا
رفتہ رفتہ تجھے بھلانا ہے