تھکن کی گرد سے خوش رنگ آہٹوں میں آ
تھکن کی گرد سے خوش رنگ آہٹوں میں آ
عداوتوں کو بھلا دے محبتوں میں آ
نہ جانے کب سے ترا انتظار ہے مجھ کو
کہ نیند توڑ کے بے خواب راستوں میں آ
مرے خیال کے سائے ترے بدن کے عکس
پکارتے ہیں ملاقات کی حدوں میں آ
لپٹ گئی ہے مرے ذہن سے تری خوشبو
میں جل رہا ہوں کہ بارش کے موسموں میں آ
سفر کی دھوپ پگھل جائے گی پرانی ہے
گلاب بن کے مہک میری دھڑکنوں میں آ
بچھڑنا ہے تو بچھڑ جا تبسموں کے ساتھ
جو مجھ سے پیار ہے تجھ کو تو پتھروں میں آ
جو شخص شعلۂ جاں بن گیا نمائش میں
تجھے نہ لوٹ لے وہ میری دھڑکنوں میں آ