Jawad Sheikh

جواد شیخ

جواد شیخ کی غزل

    مرے حواس پہ حاوی رہی کوئی کوئی بات

    مرے حواس پہ حاوی رہی کوئی کوئی بات کہ زندگی سے سوا خاص تھی کوئی کوئی بات یہ اور بات کہ محسوس تک نہ ہونے دوں جکڑ سی لیتی ہے دل کو تری کوئی کوئی بات کوئی بھی تجھ سا مجھے ہو بہ ہو کہیں نہ ملا کسی کسی میں اگرچہ ملی کوئی کوئی بات خوشی ہوئی کہ ملاقات رائیگاں نہ گئی اسے بھی میری طرح یاد ...

    مزید پڑھیے

    نہیں کہ پند و نصیحت کا قحط پڑ گیا ہے

    نہیں کہ پند و نصیحت کا قحط پڑ گیا ہے ہماری بات میں برکت کا قحط پڑ گیا ہے تو پھر یہ رد مناجات کی نحوست کیوں کبھی سنا کہ عبادت کا قحط پڑ گیا ہے؟ ملال یہ ہے کہ اس پر کوئی ملول نہیں ہمارے شہر میں حیرت کا قحط پڑ گیا ہے سخن کا کھوکھلا ہونا سمجھ سے باہر تھا کھلا کہ حرف کی حرمت کا قحط پڑ ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹنے پر کوئی آئے تو پھر ایسا ٹوٹے

    ٹوٹنے پر کوئی آئے تو پھر ایسا ٹوٹے کہ جسے دیکھ کے ہر دیکھنے والا ٹوٹے تو اسے کس کے بھروسے پہ نہیں کات رہی؟؟ چرخ کو دیکھنے والی!! ترا چرخہ ٹوٹے اپنے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو سمیٹے کب تک؟؟ ایک انسان کی خاطر کوئی کتنا ٹوٹے کوئی ٹکڑا تری آنکھوں میں نہ چبھ جائے کہیں دور ہو جا کہ مرے خواب ...

    مزید پڑھیے

    یہ وہم جانے میرے دل سے کیوں نکل نہیں رہا

    یہ وہم جانے میرے دل سے کیوں نکل نہیں رہا کہ اس کا بھی مری طرح سے جی سنبھل نہیں رہا کوئی ورق دکھا جو اشک خوں سے تر بہ تر نہ ہو کوئی غزل دکھا جہاں وہ داغ جل نہیں رہا میں ایک ہجر بے مراد جھیلتا ہوں رات دن جو ایسے صبر کی طرح ہے جس کا پھل نہیں رہا تو اب مرے تمام رنج مستقل رہیں گے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3