Jawad Sheikh

جواد شیخ

جواد شیخ کی غزل

    کہاں ہٹتا ہے نگاہوں سے ہٹائے ہائے

    کہاں ہٹتا ہے نگاہوں سے ہٹائے ہائے وہی منظر کہ جسے دیکھ نہ پائے ہائے کیا پتہ ساری تمنائیں دھواں ہو گئی ہوں کچھ نکلتا ہی نہیں دل سے سوائے ہائے یاد آتی ہوئی اک شکل پہ اللہ اللہ دل میں اٹھتی ہوئی ہر ٹیس پہ ہائے ہائے اس گلی جا کے بھی سجدہ نہ تمہیں یاد رہا صرف نظریں ہی جھکائے چلے آئے ...

    مزید پڑھیے

    غم جہاں سے میں اکتا گیا تو کیا ہوگا

    غم جہاں سے میں اکتا گیا تو کیا ہوگا خود اپنی فکر میں گھلنے لگا تو کیا ہوگا یہ ناگزیر ہے امید کی نمو کے لیے گزرتا وقت کہیں تھم گیا تو کیا ہوگا یہی بہت ہے کہ ہم کو سکوں سے جینے دے کسی کے ہاتھوں ہمارا بھلا تو کیا ہوگا یہ لوگ میری خموشی پہ مجھ سے نالاں ہیں کوئی یہ پوچھے میں گویا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    ہزار صحرا تھے رستے میں یار کیا کرتا

    ہزار صحرا تھے رستے میں یار کیا کرتا جو چل پڑا تھا تو فکر غبار کیا کرتا کبھی جو ٹھیک سے خود کو سمجھ نہیں پایا وہ دوسروں پہ بھلا اعتبار کیا کرتا چلو یہ مانا کہ اظہار بھی ضروری ہے سو ایک بار کیا، بار بار کیا کرتا اسی لیے تو در آئنہ بھی وا نہ کیا جو سو رہے ہیں انہیں ہوشیار کیا ...

    مزید پڑھیے

    تو کیا اک ہمارے لیے ہی محبت نیا تجربہ ہے

    تو کیا اک ہمارے لیے ہی محبت نیا تجربہ ہے جسے پوچھیے وہ کہے گا کہ جی ہاں بڑا تجربہ ہے سمجھ میں نہ آئے تو میری خموشی کو دل پر نہ لینا کہ یہ عقل والوں کی دانست سے ماورا تجربہ ہے کٹھن تو بہت ہے مگر دل کے رشتوں کو آزاد چھوڑو توقع نہ باندھو کہ یہ اک اذیت بھرا تجربہ ہے مگر ہم مصر تھے کہ ...

    مزید پڑھیے

    نہ سہی عیش، گزارا ہی سہی

    نہ سہی عیش، گزارا ہی سہی یعنی گر تو نہیں دنیا ہی سہی چھوڑیئے کچھ تو مرا بھی مجھ میں خون کا آخری قطرہ ہی سہی غور تو کیجے مری باتوں پر عمر میں آپ سے چھوٹا ہی سہی رنج ہم نے بھی جدا پائے ہیں آپ یکتا ہیں تو یکتا ہی سہی میں برا ہوں تو ہوں اب کیا کیجے کوئی اچھا ہے تو اچھا ہی سہی کس کو ...

    مزید پڑھیے

    کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے

    کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے پھر سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے تجھ سے جب مل کر بھی اداسی کم نہیں ہوتی تیرے بغیر گزارا کیسے ہو سکتا ہے کیسے کسی کی یاد ہمیں زندہ رکھتی ہے ایک خیال سہارا کیسے ہو سکتا ہے یار ہوا سے کیسے آگ بھڑک اٹھتی ہے لفظ کوئی انگارا کیسے ہو سکتا ہے کون زمانے ...

    مزید پڑھیے

    عرض الم بہ طرز تماشا بھی چاہیے

    عرض الم بہ طرز تماشا بھی چاہیے دنیا کو حال ہی نہیں حلیہ بھی چاہیے اے دل کسی بھی طرح مجھے دستیاب کر جتنا بھی چاہیے اسے جیسا بھی چاہیے دکھ ایسا چاہیے کہ مسلسل رہے مجھے اور اس کے ساتھ ساتھ انوکھا بھی چاہیے اک زخم مجھ کو چاہیے میرے مزاج کا یعنی ہرا بھی چاہیے گہرا بھی چاہیے اک ...

    مزید پڑھیے

    جو بھی جینے کے سلسلے کیے تھے

    جو بھی جینے کے سلسلے کیے تھے ہم نے بس آپ کے لیے کیے تھے تب کہیں جا کے اپنی مرضی کی پہلے اپنوں سے مشورے کیے تھے کبھی اس کی نگہ میسر تھی کیسے کیسے مشاہدے کیے تھے عقل کچھ اور کر کے بیٹھ رہی عشق نے اور فیصلے کیے تھے بات ہم نے سنی ہوئی سنی تھی کام اس نے کیے ہوئے کیے تھے اسے بھی ایک ...

    مزید پڑھیے

    مولا کسی کو ایسا مقدر نہ دیجیو

    مولا کسی کو ایسا مقدر نہ دیجیو دلبر نہیں تو پھر کوئی دیگر نہ دیجیو اپنے سوال سہل نہ لگنے لگیں اسے آتے بھی ہوں جواب تو فر فر نہ دیجیو چادر وہ دیجیو اسے جس پر شکن نہ آئے جس پر شکن نہ آئے وہ بستر نہ دیجیو آئے نہ کار شکر گزاری پہ کوئی حرف جب دیجیو تو ظرف سے بڑھ کر نہ دیجیو بکھراؤ ...

    مزید پڑھیے

    نہیں ایسا بھی کہ یکسر نہیں رہنے والا

    نہیں ایسا بھی کہ یکسر نہیں رہنے والا دل میں یہ شور برابر نہیں رہنے والا جس طرح خامشی لفظوں میں ڈھلی جاتی ہے اس میں تاثیر کا عنصر نہیں رہنے والا اب یہ کس شکل میں ظاہر ہو، خدا ہی جانے رنج ایسا ہے کہ اندر نہیں رہنے والا میں اسے چھوڑنا چاہوں بھی تو کیسے چھوڑوں؟ وہ کسی اور کا ہو کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3