مرے حواس پہ حاوی رہی کوئی کوئی بات
مرے حواس پہ حاوی رہی کوئی کوئی بات
کہ زندگی سے سوا خاص تھی کوئی کوئی بات
یہ اور بات کہ محسوس تک نہ ہونے دوں
جکڑ سی لیتی ہے دل کو تری کوئی کوئی بات
کوئی بھی تجھ سا مجھے ہو بہ ہو کہیں نہ ملا
کسی کسی میں اگرچہ ملی کوئی کوئی بات
خوشی ہوئی کہ ملاقات رائیگاں نہ گئی
اسے بھی میری طرح یاد تھی کوئی کوئی بات
بدن میں زہر کے مانند پھیل جاتی ہے
دلوں میں خوف سے سہمی ہوئی کوئی کوئی بات
کبھی سمجھ نہیں پائے کہ اس میں کیا ہے مگر
چلی تو ایسے کہ بس چل پڑی کوئی کوئی بات
وضاحتوں میں الجھ کر یہی کھلا جوادؔ
ضروری ہے کہ رہے ان کہی کوئی کوئی بات