بچ کے وہ نکلتے ہیں جن سے روشناسی ہے

بچ کے وہ نکلتے ہیں جن سے روشناسی ہے
زندگی ہماری تو اب اجل نما سی ہے


جذب ہو گئی دل کی بے کلی فضاؤں میں
اس طرف ہے سناٹا اس طرف اداسی ہے


دل کشی غضب کی ہے حسن سادہ کاری میں
کس کے دست رنگیں نے پھول کی قبا سی ہے


خشکیٔ لب ساحل کہہ رہی ہے پیاسوں سے
کیا بساط دریا خود اس کی روح پیاسی ہے


اس قدر پڑا پانی کھیت جل گیا سارا
ابر کی طبیعت بھی برق شعلہ زا سی ہے


روح خود شناسی ہے آدمی کی خودداری
خود شناسیٔ انساں اصل حق شناسی ہے