بابل تیری یاد

بابا ایسے میں تم یاد بہت آتے ہو
کیسی رت ہے
ایسی رت میں
آنکھیں کیوں بھر آتی ہیں
کیوں تن من سے ہوک اٹھتی ہے
کیوں جیون بے معنی سا لگنے لگتا ہے
گھر سونا ویران یہ آنگن
اور کمروں میں وحشت
بابل میں تنہا
میری قیمت تجھ بن کیا ہے
کچھ بھی نہیں ہے
میں تو کانچ کا موتی ہوں
بابل کا آنگن تو ساون میں یاد آیا کرتا ہے
لیکن بابا میں تو پت جھڑ دیکھ کے روتی ہوں
بابا ایسے میں تم یاد بہت آتے ہو
رات کو سوکھے پتے
صحن میں گرتے ہیں
گزرے دن کب پھرتے ہیں
پھر آتی رت پھول کھلیں گے
پھر قبروں پر رونا
اور قبروں سا ہونا
مٹی کی تہہ میں بھی جا کر
رشتے کب مٹتے ہیں
درد کی دیمک جسم کو چاٹتی رہتی ہے
اور سانسوں کے دھاگے کاٹتی رہتی ہے