پھر رک نہیں سکا ہوں کسی بھی چٹان سے
پھر رک نہیں سکا ہوں کسی بھی چٹان سے ایسا گرا ہوں روز ازل آسمان سے ہے جبر میں بھی ایک گماں اختیار کا دو چار ہر قدم پہ ہوں اک امتحان سے اب میں ہوں اور ہواؤں کی سازش کا سامنا اک تیر ہوں چلا ہوں قضا کی کمان سے اک آئنہ کہ جس میں کہیں بال پڑ گیا اک سلسلہ کہ ٹوٹ گیا درمیان سے گم سم کھڑے ...