پھر رک نہیں سکا ہوں کسی بھی چٹان سے
پھر رک نہیں سکا ہوں کسی بھی چٹان سے
ایسا گرا ہوں روز ازل آسمان سے
ہے جبر میں بھی ایک گماں اختیار کا
دو چار ہر قدم پہ ہوں اک امتحان سے
اب میں ہوں اور ہواؤں کی سازش کا سامنا
اک تیر ہوں چلا ہوں قضا کی کمان سے
اک آئنہ کہ جس میں کہیں بال پڑ گیا
اک سلسلہ کہ ٹوٹ گیا درمیان سے
گم سم کھڑے ہیں اب در و دیوار اور میں
وہ لوگ کب کے جا بھی چکے ہیں مکان سے
خوشیاں جو مجھ کو مل نہ سکیں اس جہان میں
مجھ کو بلا رہی ہیں نئے اک جہان سے
اس بات کا جمیلؔ مجھے کچھ پتہ نہیں
اقرار کر رہا ہوں میں جس کا زبان سے