صدا کا لوچ سخن کا نکھار لے کے چلے

صدا کا لوچ سخن کا نکھار لے کے چلے
تری نظر سے فسون بہار لے کے چلے


ترے جمال کی صبح جواں تھی آنکھوں میں
جبیں پہ شام ستم کا غبار لے کے چلے


رہ وفا میں متاع سفر کی بات نہ پوچھ
بس ایک زندگئ مستعار لے کے چلے


نہ یار لطف پہ مائل نہ شہر درد شناس
کہاں یہ ہم دل امیدوار لے کے چلے


طلب کی راہ میں اک یہ بھی حادثہ گزرا
ہم اپنے ذوق نظر کا وقار لے کے چلے