سبیل سجدۂ نا مختتم بناتے ہوئے
سبیل سجدۂ نا مختتم بناتے ہوئے خدا تک آئے ہیں کیا کیا صنم بناتے ہوئے غرور عشق میں اک انکسار فقر بھی ہے خمیدہ سر ہیں وفا کو علم بناتے ہوئے ترے خیال کی رو ہے کہ کوئی موج طرب گزر رہی ہے عجب زیر و بم بناتے ہوئے جبین وقت پہ ثبت اپنا نقش اس نے کیا دلوں کے داغ چراغ حرم بناتے ہوئے تو کیا ...