جلیل عالیؔ کی غزل

    سبیل سجدۂ نا مختتم بناتے ہوئے

    سبیل سجدۂ نا مختتم بناتے ہوئے خدا تک آئے ہیں کیا کیا صنم بناتے ہوئے غرور عشق میں اک انکسار فقر بھی ہے خمیدہ سر ہیں وفا کو علم بناتے ہوئے ترے خیال کی رو ہے کہ کوئی موج طرب گزر رہی ہے عجب زیر و بم بناتے ہوئے جبین وقت پہ ثبت اپنا نقش اس نے کیا دلوں کے داغ چراغ حرم بناتے ہوئے تو کیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ شب و روز جو اک بے کلی رکھی ہوئی ہے

    یہ شب و روز جو اک بے کلی رکھی ہوئی ہے جانے کس حسن کی دیوانگی رکھی ہوئی ہے وہ جو اک موج محبت ترے رخ پر جھلکی آنکھ میں آج بھی اس کی نمی رکھی ہوئی ہے وقت دیتا ہے جو پہچان تو یہ دیکھتا ہے کس نے کس درد میں دل کی خوشی رکھی ہوئی ہے آتی رہتی ہیں عجب عکس و صدا کی لہریں میرے حصے کی کہیں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے خوشی ہے مری اس سے رسم و راہ نہیں

    مجھے خوشی ہے مری اس سے رسم و راہ نہیں وہ شخص دل سے کسی کا بھی خیر خواہ نہیں سبھی خموش ہیں آپس کی دشمنی میں یہاں کسی کی بے گنہی کا کوئی گواہ نہیں وہ منصبوں کی ہوا میں ہے کسی طرح سمجھے غلام شہر میں کوئی بھی کج کلاہ نہیں ہم اپنے شوق دیوں کی سلامتی چاہیں کسی کے انجم و مہتاب پر نگاہ ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی موسم ہنر حرف و بیاں لے جائے

    جب بھی موسم ہنر حرف و بیاں لے جائے یوں لگے جسم سے جیسے کوئی جاں لے جائے ہم کہ ہیں نقش سر ریگ رواں کیا جانے کب کوئی موج ہوا اپنا نشاں لے جائے ایک آزادی کہ زندانئ خواہش کر دے اک اسیری کہ کراں تا بہ کراں لے جائے وحشت شوق مقدر تھی سو بچتے کب تک اب تو یہ سیل بلا خیز جہاں لے جائے ایک ...

    مزید پڑھیے

    جسم کے خول سے نکلوں تو قضا کو دیکھوں

    جسم کے خول سے نکلوں تو قضا کو دیکھوں بت کو رستے سے ہٹاؤں تو خدا کو دیکھوں ایسا کیا جرم ہوا ہے کہ تڑپتے مرتے اپنے احساس کی سولی پہ انا کو دیکھوں بولتی آنکھ کا رس ہنستے ہوئے لفظ کا روپ بات نظروں کی سنوں یا کہ صدا کو دیکھوں ان کی قسمت کہ کھلیں روز تمنا کے گلاب میری تقدیر کہ زخموں ...

    مزید پڑھیے

    ثبوت اشتیاق ہمرہی لاؤ تو آؤ

    ثبوت اشتیاق ہمرہی لاؤ تو آؤ حصار ذات سے باہر نکل پاؤ تو آؤ زمانوں سے فقط لہریں گمانوں کی گنو ہو کسی دن تم یہ دریا پار کر جاؤ تو آؤ حد خواہش میں جینا ہے تو جاؤ راہ اپنی نہ دشت شوق کی وسعت سے گھبراؤ تو آؤ عجب بے اختیارانہ تھی ہر آمد تمہاری اسی موج محبت میں کبھی آؤ تو آؤ یہ درویشوں ...

    مزید پڑھیے

    سلگ اٹھی ہے کوئی آگ سی ہواؤں میں

    سلگ اٹھی ہے کوئی آگ سی ہواؤں میں بدل گئی ہیں بہاریں مری خزاؤں میں نہ آئی راس بناوٹ کی زندگی مجھ کو میں شہر چھوڑ کے پھر آ گیا ہوں گاؤں میں قدم قدم پہ نیا اک خدا نظر آیا نہ جانے کون سا برحق ہے ان خداؤں میں کوئی امید کی بارش کا اہتمام کرو میں جل رہا ہوں غم و یاس کی چتاؤں میں بہت ...

    مزید پڑھیے

    دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے

    دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے بے تابی کچھ اور بڑھا دی ایک جھلک دکھلا دینے سے پیاس بجھے کیسے صحرا کی دو بوندیں برسا دینے سے ہنستی آنکھیں لہو رلائیں کھلتے گل چہرے مرجھائیں کیا پائیں بے مہر ہوائیں دل دھاگے الجھا دینے سے ہم ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ میں پرتو مہتاب سلامت رہ جائے

    آنکھ میں پرتو مہتاب سلامت رہ جائے کوئی صورت ہو کہ اک خواب سلامت رہ جائے روز ڈھے جائے یہ ہارا تن و جاں کا لیکن ڈھیر میں اک دل بے تاب سلامت رہ جائے وہ کسی خیر خزانے کی خبر دیتا ہے جو سفینہ پس سیلاب سلامت رہ جائے دل کسی موج جنوں میں جو لہو سے لکھ دے ایسی تحریر سر آب سلامت رہ ...

    مزید پڑھیے

    راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے

    راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے آگ ہی آگ ہو سینے میں تو کیا پھول جھڑیں شعلہ ہوتی ہے زباں لفظ شرر بنتا ہے زندگی سوچ عذابوں میں گزاری ہے میاں ایک دن میں کہاں انداز نظر بنتا ہے مدعی تخت کے آتے ہیں چلے جاتے ہیں شہر کا تاج کوئی خاک بسر بنتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5