مجھے خوشی ہے مری اس سے رسم و راہ نہیں
مجھے خوشی ہے مری اس سے رسم و راہ نہیں
وہ شخص دل سے کسی کا بھی خیر خواہ نہیں
سبھی خموش ہیں آپس کی دشمنی میں یہاں
کسی کی بے گنہی کا کوئی گواہ نہیں
وہ منصبوں کی ہوا میں ہے کسی طرح سمجھے
غلام شہر میں کوئی بھی کج کلاہ نہیں
ہم اپنے شوق دیوں کی سلامتی چاہیں
کسی کے انجم و مہتاب پر نگاہ نہیں
انا کے مول نہ تخت شہی بھی لے آئیں
وگرنہ کس کو تمنائے نام و جاہ نہیں