Jai Prakash Ghafil

جے پرکاش غافل

جے پرکاش غافل کی غزل

    ہے نوک خار میں کچھ وہ تو سبزہ زار میں کچھ

    ہے نوک خار میں کچھ وہ تو سبزہ زار میں کچھ خزاں میں کچھ ہے مگر موسم بہار میں کچھ گہر تھا ماہ تھا جگنو تھا یا ستارۂ شام چمک رہا تھا تری چشم اشکبار میں کچھ کہاں کے وہم و گماں کا ہے سلسلہ مری زیست کہ اس کے پار ہی کچھ ہے نہ اس حصار میں کچھ تمام عمر وہی مثل خار چبھتے رہے گزر گئے تھے جو ...

    مزید پڑھیے

    میں تیرے پاس ہوں مجھ سے یہ کہہ رہا کوئی ہے

    میں تیرے پاس ہوں مجھ سے یہ کہہ رہا کوئی ہے تمام شب مری آنکھوں میں جاگتا کوئی ہے دیا امید کا بجھتا ہے جلتی آنکھوں میں کسی کے لب پہ مرے واسطے دعا کوئی ہے پرانی باتوں کی یادیں بھکاریوں کی طرح سوال کرتی ہیں ایوان دل پہ کیا کوئی ہے گماں گزرتا ہے ہوتے ہوئے نہ ہونے کا تری نگاہ میں ...

    مزید پڑھیے

    سراغ مجھ سے ملے گا نہ رونق شب کا

    سراغ مجھ سے ملے گا نہ رونق شب کا چراغ تو ہوں مگر بجھ چکا ہوں میں کب کا کہوں زمین تو وہ آسماں سمجھتا ہے کبھی کھلا ہی نہیں آدمی ہے کس ڈھب کا عجیب ڈھنگ سے تھی جستجوئے زیست مجھے پیالہ جیسے کوئی تشنہ گرمی لب کا خیال یار کے پردے میں رنج دنیا تھا سنا گیا ہے کچھ ایسا ہی قصہ ہم سب ...

    مزید پڑھیے

    کنار دریا جنون طوفاں ہر ایک گوہر کی آب میں ہوں

    کنار دریا جنون طوفاں ہر ایک گوہر کی آب میں ہوں بغیر میرے سبھی ہیں پانی کہ موجوں کا اضطراب میں ہوں یہ وقت کا بے کراں سمندر میں اس کی حد تک پہنچ نہ پایا گرا تھا ساحل پہ ٹوٹ کر جو ہوا تھا جو غرق آب میں ہوں نہ جانے کیا ہے کہ میری ہستی کسی کی آنکھوں کا مے کدہ ہے سبو بھی میں ہوں ہوں میں ...

    مزید پڑھیے