کنار دریا جنون طوفاں ہر ایک گوہر کی آب میں ہوں
کنار دریا جنون طوفاں ہر ایک گوہر کی آب میں ہوں
بغیر میرے سبھی ہیں پانی کہ موجوں کا اضطراب میں ہوں
یہ وقت کا بے کراں سمندر میں اس کی حد تک پہنچ نہ پایا
گرا تھا ساحل پہ ٹوٹ کر جو ہوا تھا جو غرق آب میں ہوں
نہ جانے کیا ہے کہ میری ہستی کسی کی آنکھوں کا مے کدہ ہے
سبو بھی میں ہوں ہوں میں ہی ساقی ایاغ میں ہوں شراب میں ہوں
ترے کرم کی کرن نے مجھ کو اٹھایا پستی سے آسماں پر
کبھی یہ شک آفتاب میں ہوں کبھی گماں ماہتاب میں ہوں
جہاں نہیں تھا وہاں بھی میں تھا تو دیکھ کر بھی نہ دیکھ پایا
کلام بھی میں سکوت بھی میں سوال میں ہوں جواب میں ہوں
اسی نے ہر شب کی صبح کی ہے ہر اک دئے کی وہ روشنی ہے
کبھی مجسم بھی ہو کے کہہ دے کہ دیکھ تیرا ہی خواب میں ہوں