ہے نوک خار میں کچھ وہ تو سبزہ زار میں کچھ
ہے نوک خار میں کچھ وہ تو سبزہ زار میں کچھ
خزاں میں کچھ ہے مگر موسم بہار میں کچھ
گہر تھا ماہ تھا جگنو تھا یا ستارۂ شام
چمک رہا تھا تری چشم اشکبار میں کچھ
کہاں کے وہم و گماں کا ہے سلسلہ مری زیست
کہ اس کے پار ہی کچھ ہے نہ اس حصار میں کچھ
تمام عمر وہی مثل خار چبھتے رہے
گزر گئے تھے جو پل سایۂ بہار میں کچھ
پھر اس کے بعد ہے خود پر یقیں نہ دنیا پر
تھی ایسی بات ہی اک پل کے اعتبار میں کچھ
میں اس کی یاد سے دامن چھڑا لوں مجھ کو خیال
تب آیا جب نہ رہا میرے اختیار میں کچھ
نہ چاہتا وہ تو روشن نہ ہوتی کوئی بھی شے
ہے نور اس کا بھی کیا شام انتظار میں کچھ