سراغ مجھ سے ملے گا نہ رونق شب کا
سراغ مجھ سے ملے گا نہ رونق شب کا
چراغ تو ہوں مگر بجھ چکا ہوں میں کب کا
کہوں زمین تو وہ آسماں سمجھتا ہے
کبھی کھلا ہی نہیں آدمی ہے کس ڈھب کا
عجیب ڈھنگ سے تھی جستجوئے زیست مجھے
پیالہ جیسے کوئی تشنہ گرمی لب کا
خیال یار کے پردے میں رنج دنیا تھا
سنا گیا ہے کچھ ایسا ہی قصہ ہم سب کا
اٹھے جو محفل دنیا سے تو ہوا معلوم
کہ داغ دار ہے دامن یہاں تو ہم سب کا
کیا ہے جس نے مجھے در بہ در وہ غافلؔ ہے
کہ میں ورق ہوں اسی عالم مرتب کا