پر شور تلاطم کا مداوا کوئی آہٹ
پر شور تلاطم کا مداوا کوئی آہٹ
سنگین فضا میں تھی دلاسا کوئی آہٹ
بے درد ہواؤں نے ہراساں تو کیا تھا
تھی ساتھ مگر ان کے شناسا کوئی آہٹ
جب کالی گھٹا قہر کا سامان بنی تھی
دے کر گئی بجلی کا اجالا کوئی آہٹ
گوشے میں تصور جہاں بیمار پڑا تھا
کرتی تھی محبت سے اشارہ کوئی آہٹ
خاموش خیالوں کے قفس میں تو پڑا رہ
جاگے گی نہیں در پہ دوبارہ کوئی آہٹ
سیلاب کے نرغے میں گھری جب سے تمنا
اک سپنا دکھاتی ہے سہانا کوئی آہٹ
کرتی ہے کبھی غیظ کی بانہوں کو پکڑ کر
بے چین سمندر میں تماشا کوئی آہٹ
اک یاد کا آنچل جو اڑا تیز ہوا میں
دینے لگی ہمدرد بلاوا کوئی آہٹ
رحمت بھری آنکھوں سے ذرا دیکھنا جعفرؔ
طوفان میں ڈھونڈے ہے سہارا کوئی آہٹ