Ismail Khan Talib

اسماعیل خاں طالب

  • 1918

اسماعیل خاں طالب کی غزل

    نظر ہر شے کو ہر ذرہ کو اپنا دل سمجھتا ہوں

    نظر ہر شے کو ہر ذرہ کو اپنا دل سمجھتا ہوں اسی دیوانگی کو ہوش کا حاصل سمجھتا ہوں ڈبویا جذبۂ معصوم کی اس خوش فریبی نے مجھے داد وفا دیں گے سر محفل سمجھتا ہوں علاج درد کس کافر کو ہے درکار چارہ گر محبت کی امانت ہے اسے میں دل سمجھتا ہوں طبیعت ہو گئی ہے اس قدر خوگر حوادث کی سفینہ موج ...

    مزید پڑھیے

    رسم ہوتی ہے مری اب بھی ادا میرے بعد

    رسم ہوتی ہے مری اب بھی ادا میرے بعد خاک اڑاتی ہے بیاباں میں صبا میرے بعد عشق کو میرے جنوں کہہ کے نوازا تم نے ہائے رسوا مجھے کیا کیا نہ کیا میرے بعد اب مری طرح کسے کھینچ کے شامت لائی کون ہے حاصل بیداد و جفا میرے بعد ابر تو چھاتے ہیں مے خانے پہ اب بھی لیکن لطف معدوم مکدر ہے فضا ...

    مزید پڑھیے

    لطیف بن کے مہک جو گل و سمن میں رہے

    لطیف بن کے مہک جو گل و سمن میں رہے کہیں تمہیں تو نہیں پردۂ چمن میں رہے زلیخا ہوتی ہے رسوا بھی پاک دامانی الجھ کے لاکھ جو یوسف کے پیرہن میں رہے بجھا ہو دل ہی تو اس جستجو سے کیا حاصل کوئی ہو پھول کسی گوشۂ چمن میں رہے جنوں قسم ہے تجھے بات ہوش کی جب ہے کہ ایک تار بھی باقی نہ پیرہن میں ...

    مزید پڑھیے

    کہیں زاغ کی رسائی کسی گوشۂ چمن میں

    کہیں زاغ کی رسائی کسی گوشۂ چمن میں کہیں خواب تو نہیں ہے مرا ذکر انجمن میں میں کبھی حریم گل میں کبھی گوشۂ چمن میں تجھے ڈھونڈھتا رہا ہوں میں ہر ایک انجمن میں وہ لطیف کیفیت جو تری چشم کی عطا ہے یہ ودیعت الٰہی کہاں بادۂ کہن میں وہ حسیں جواں تھے کتنے مری زندگی کے حاصل جو ملے تھے چند ...

    مزید پڑھیے