نظر ہر شے کو ہر ذرہ کو اپنا دل سمجھتا ہوں

نظر ہر شے کو ہر ذرہ کو اپنا دل سمجھتا ہوں
اسی دیوانگی کو ہوش کا حاصل سمجھتا ہوں


ڈبویا جذبۂ معصوم کی اس خوش فریبی نے
مجھے داد وفا دیں گے سر محفل سمجھتا ہوں


علاج درد کس کافر کو ہے درکار چارہ گر
محبت کی امانت ہے اسے میں دل سمجھتا ہوں


طبیعت ہو گئی ہے اس قدر خوگر حوادث کی
سفینہ موج کو طوفان کو ساحل سمجھتا ہوں


بجھا دیتا ہوں طالبؔ اپنی آنکھیں اس کی راہوں میں
کسی اہل ہنر کو جب بھی اس قابل سمجھتا ہوں