لطیف بن کے مہک جو گل و سمن میں رہے
لطیف بن کے مہک جو گل و سمن میں رہے
کہیں تمہیں تو نہیں پردۂ چمن میں رہے
زلیخا ہوتی ہے رسوا بھی پاک دامانی
الجھ کے لاکھ جو یوسف کے پیرہن میں رہے
بجھا ہو دل ہی تو اس جستجو سے کیا حاصل
کوئی ہو پھول کسی گوشۂ چمن میں رہے
جنوں قسم ہے تجھے بات ہوش کی جب ہے
کہ ایک تار بھی باقی نہ پیرہن میں رہے
خدا سے کر کے دعا تم کو مانگ ہی لیں گے
زباں ہماری سلامت اگر دہن میں رہے
سخن کی بزم پہ موقوف کچھ نہیں طالبؔ
رہے ہیں روح رواں ہم جس انجمن میں رہے