Iqbal Kausar

اقبال کوثر

اقبال کوثر کی غزل

    اندر سے منتشر ہوں کہ باہر شکستہ ہے

    اندر سے منتشر ہوں کہ باہر شکستہ ہے میں خود شکستہ ہوں کہ مرا گھر شکستہ ہے ہر شے کے خال و خد ہیں مرے خوں میں منتشر ہر جسم میرے جسم کے اندر شکستہ ہے نکلا تھا کس کی ناؤ میں ساحل کے چاؤ میں اب تک ہوں میں بہاؤ میں لنگر شکستہ ہے اک سنگ سے ہے فکر ارسطو شرر نما اک آئنے میں عکس سکندر شکستہ ...

    مزید پڑھیے

    ابھی مرا آفتاب افق کی حدود سے آشنا نہیں ہے

    ابھی مرا آفتاب افق کی حدود سے آشنا نہیں ہے مری بھی شب کی سحر ہے لیکن نمود سے آشنا نہیں ہے کھلے کسی کے شعور پر تو مجھے بھی اس کا سراغ دے دے کہ میرا جوہر ہنوز اپنے وجود سے آشنا نہیں ہے غضب ہے فطرت کا دشت و کہسار میں نوائے سکوت بھرنا مگر وہ کیا سن سکے گا جو اس سرود سے آشنا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جو زخم جمع کیے آنکھ بھر سناتا ہوں

    جو زخم جمع کیے آنکھ بھر سناتا ہوں سنو گے بند زباں کیا نظر سناتا ہوں جو سن سکو تو سکوت پس نوا بھی سنو یہی تو میں تمہیں شام و سحر سناتا ہوں نگاہ لاؤ جو رنگ صدا کشید کرے کہ میں تو خاموشیوں کے ہنر سناتا ہوں یہی کمال ہے میرے الگ تکلم کا خبر بھی ہوتی نہیں جو خبر سناتا ہوں اگرچہ ایک ہی ...

    مزید پڑھیے

    جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں

    جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں آج کل ہم ترے بارے میں بہت سوچتے ہیں کون حالات کی سوچوں کے تموج میں نہیں ہم بھی بہہ کر اسی دھارے میں بہت سوچتے ہیں ہنر کوزہ گری نے انہیں بخشی ہے تراش یا یہ سب نقش تھے گارے میں بہت سوچتے ہیں دھیان دھرتی کا نکلتا ہی نہیں ہے دل سے جب سے اترے ہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2