Iqbal Kausar

اقبال کوثر

اقبال کوثر کی نظم

    اظہار

    ہم نے سوچا اب شکستہ گھر مقفل نہیں ہو سکتے کواڑوں کے بغیر اچھے کواڑ اچھی عمارت کے بغیر ہم نے کچھ کالی تجارت سے کمائی کی ادھر کچھ جنگلوں کے چور اپنے یار تھے لکڑی خریدی اور کواڑوں اور کڑیوں میں گھڑی نقشے بنائے اور دیواریں چنیں ہم نے چھتیں ڈالیں نئی تعمیر کو ہر رنگ کی ہر آرٹ کی دھج ...

    مزید پڑھیے

    مزاحمتوں کے عہد‌ نگار

    ان سے کہنا کہ وہ اپنی اس جنگ میں اب اکیلے نہیں آج کی جنگ سب کی ہے اور سارے وقتوں کی ہے اپنے اپنے محاذوں کی دہلیز پر ہم بھی مورچہ بند اور صف بہ صف ان کے ہم دوش ہیں ہم کہ خاموش ہیں ہم کہ خاموش ہیں کیتلی کا تلاطم نہیں چیخنے کے ہنر شناسا نہیں بے محل حلق بازوں اندھیرے کے عف عف زنوں کی ...

    مزید پڑھیے

    رواں ہوں میں

    رواں ہوں میں اور اس روانی میں عہد در عہد کی جراحت نما بصارت کی خاک کا وہ بھنور ہے جس میں مرے شب و روز کا غبار سیہ مرے سنگ گھومتا ہے رواں ہوں میں اور خود پہ اور سب پہ ہنس رہا ہوں کہ میری مانند ہم سبھی وقت کی کھڑی سائیکل کا گردش پذیر پہیہ ہیں نا مسافت نو رو گرداں کہ نارسائی کے خشت ...

    مزید پڑھیے