اندر سے منتشر ہوں کہ باہر شکستہ ہے

اندر سے منتشر ہوں کہ باہر شکستہ ہے
میں خود شکستہ ہوں کہ مرا گھر شکستہ ہے


ہر شے کے خال و خد ہیں مرے خوں میں منتشر
ہر جسم میرے جسم کے اندر شکستہ ہے


نکلا تھا کس کی ناؤ میں ساحل کے چاؤ میں
اب تک ہوں میں بہاؤ میں لنگر شکستہ ہے


اک سنگ سے ہے فکر ارسطو شرر نما
اک آئنے میں عکس سکندر شکستہ ہے


اک محویت کہ حیرت ساحل ہے ہر طرف
اک کیفیت کہ سارا سمندر شکستہ ہے


یا شیشۂ نگہ ہی ملا مجھ کو چور چور
یا شیشۂ جہت میں یہ منظر شکستہ ہے


کوثرؔ بدل گئے ہیں پرستش کے ذائقے
محراب سر خمیدہ ہے منبر شکستہ ہے