Iqbal Kausar

اقبال کوثر

اقبال کوثر کی غزل

    گرمیٔ خوں الجھے لگی آخری منجمد پہر سے

    گرمیٔ خوں الجھے لگی آخری منجمد پہر سے دیکھیے اب گزرتے ہیں ہم کس قیامت کے شب شہر سے یوں لگے درد بخشیدہ کی ابتدا بھی اک انتہا سنگ چاٹے لب اشتہا پیاس بجھتی نہیں زہر سے منتظر آنکھ کے دیس میں کوئی چھٹی بھی آیا نہیں کون عافیت دوستاں لائے گا دوسرے شہر سے میرے اندر کی ناپختگی جسم باہر ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ مجھ کو بے طوق و رسن بستہ نہیں چھوڑا

    اگرچہ مجھ کو بے طوق و رسن بستہ نہیں چھوڑا کسی قیدی کو اس نے اس قدر سستا نہیں چھوڑا ہر اک سے دوسرے کا ربط اس نے توڑ ڈالا ہے کسی کا دل کسی کے دل سے وابستہ نہیں چھوڑا خود اپنے خواب چن آیا ہوں کچھ رنگین دھوکوں میں کسی تتلی کی خاطر میں نے گلدستہ نہیں چھوڑا سنیں روداد غم کس سے کہ آشوب ...

    مزید پڑھیے

    کاہش غم نے جگر خون کیا اندر سے

    کاہش غم نے جگر خون کیا اندر سے ہم نے باہر بھی یہی زہر پیا اندر سے زندہ لگتا ہوں تو یہ فن ہے مرے ساحر کا ان نگاہوں نے مجھے کھینچ لیا اندر سے وہ بھی رو رو کے بجھا ڈالا ہے اب آنکھوں نے روشنی دیتا تھا جو ایک دیا اندر سے مژۂ ملتفت یار ہے بد نام عبث اس نے تو دل کا بس اک چاک سیا اندر ...

    مزید پڑھیے

    مری خاک اس نے بکھیر دی سر رہ غبار بنا دیا

    مری خاک اس نے بکھیر دی سر رہ غبار بنا دیا میں جب آ سکا نہ شمار میں مجھے بے شمار بنا دیا ترا نقش اترا سر ورق تو تصرف لب و چشم سے بھرے رنگ میں نے کچھ اس طرح اسے شاہکار بنا دیا ترے جزو جزو خیال کو رگ جاں میں پورا اتار کر وہ جو بار بار کی شکل تھی اسے ایک بار بنا دیا مجھے ننگ نقش ہی کب ...

    مزید پڑھیے

    سپرد غم زدگان صف وفا ہوا میں

    سپرد غم زدگان صف وفا ہوا میں پڑا ہوں عمر کی دیوار سے گرا ہوا میں عجیب سوچ سی اور اس پہ سوچتا ہوا میں کہ ٹوٹتا تری حیرت میں آئنا ہوا میں کہیں میں کوہ پہ فرہاد اور دشت میں قیس وجود عشق میں ہوں خود کو ڈھونڈھتا ہوا میں جسے بھی ملنا ہے مجھ سے وہ انتظار کرے نہ جانے کب پلٹ آؤں کہیں گیا ...

    مزید پڑھیے

    میں در پہ ترے دربدری سے نکل آیا

    میں در پہ ترے دربدری سے نکل آیا چل کر بہ درستی غلطی سے نکل آیا اب مسئلہ یہ ہے ترے محور میں کب اتروں میں اپنی حدوں سے تو کبھی سے نکل آیا کب مجھ کو نکلنا تھا یہ حیرت ہے فلک کو میدان زمیں میں میں ابھی سے نکل آیا اس تیرہ شبی میں کسی جگنو کی چمک ہے یا جگنو خود اس تیرہ شبی سے نکل آیا اے ...

    مزید پڑھیے

    اقبالؔ یونہی کب تک ہم قید انا کاٹیں

    اقبالؔ یونہی کب تک ہم قید انا کاٹیں مل بیٹھ کے لوگوں میں آ اپنے خلا کاٹیں جو کرنا ہے اب کر لیں ہم تم سے نہ کہتے تھے اب سنگ ستم چاہیں ہونے کی سزا کاٹیں اب بانجھ زمینوں سے امید بھی کیا رکھنا روئیں بھی تو لا حاصل بوئیں بھی تو کیا کاٹیں پر لے کے کدھر جائیں کچھ دور تک اڑ آئیں دم جتنا ...

    مزید پڑھیے

    اک لو تھی مرے خون میں تحلیل تو یہ تھی

    اک لو تھی مرے خون میں تحلیل تو یہ تھی اک برق سی رو تھی مری قندیل تو یہ تھی تیرے رخ خاموش سے میری رگ جاں تک جو کام کیا آنکھ نے ترسیل تو یہ تھی بننا تھا تو بنتا نہ فرشتہ نہ خدا میں انسان ہی بنتا مری تکمیل تو یہ تھی سانپوں کے تسلط میں تھے چڑیوں کے بسیرے مفتوح گھرانے! تری تمثیل تو یہ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی آئنے سا بھی سوچنا مجھے آ گیا

    کبھی آئنے سا بھی سوچنا مجھے آ گیا مرا دل کے بیچ ہی ٹوٹنا مجھے آ گیا تری پہلی دید کے ساتھ ہی وہ فسوں بھی تھا تجھے دیکھ کر تجھے دیکھنا مجھے آ گیا کوئی گہرے نیل سا سحر ہے تری آنکھ میں یہ وہ جھیل ہے جہاں ڈوبنا مجھے آ گیا مجھے کیا جو ہو کوئی لے میں شعر میں رنگ میں مرا دکھ یہ ہے اسے ...

    مزید پڑھیے

    کریں ہجرت تو خاک شہر بھی جز دان میں رکھ لیں

    کریں ہجرت تو خاک شہر بھی جز دان میں رکھ لیں چلیں گھر سے تو گھر کیا یاد بھی سامان میں رکھ لیں ہمارا کیا کہ گل کو نوچ کر تکریم بھی دے دیں صحیفے میں سجا دیں یا کسی گلدان میں رکھ لیں زیان دل ہی اس بازار میں سود محبت ہے یہاں ہے فائدہ خود کو اگر نقصان میں رکھ لیں بہت ترسی ہے دنیا تیرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2