Iqbal Kausar

اقبال کوثر

اقبال کوثر کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    گرمیٔ خوں الجھے لگی آخری منجمد پہر سے

    گرمیٔ خوں الجھے لگی آخری منجمد پہر سے دیکھیے اب گزرتے ہیں ہم کس قیامت کے شب شہر سے یوں لگے درد بخشیدہ کی ابتدا بھی اک انتہا سنگ چاٹے لب اشتہا پیاس بجھتی نہیں زہر سے منتظر آنکھ کے دیس میں کوئی چھٹی بھی آیا نہیں کون عافیت دوستاں لائے گا دوسرے شہر سے میرے اندر کی ناپختگی جسم باہر ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ مجھ کو بے طوق و رسن بستہ نہیں چھوڑا

    اگرچہ مجھ کو بے طوق و رسن بستہ نہیں چھوڑا کسی قیدی کو اس نے اس قدر سستا نہیں چھوڑا ہر اک سے دوسرے کا ربط اس نے توڑ ڈالا ہے کسی کا دل کسی کے دل سے وابستہ نہیں چھوڑا خود اپنے خواب چن آیا ہوں کچھ رنگین دھوکوں میں کسی تتلی کی خاطر میں نے گلدستہ نہیں چھوڑا سنیں روداد غم کس سے کہ آشوب ...

    مزید پڑھیے

    کاہش غم نے جگر خون کیا اندر سے

    کاہش غم نے جگر خون کیا اندر سے ہم نے باہر بھی یہی زہر پیا اندر سے زندہ لگتا ہوں تو یہ فن ہے مرے ساحر کا ان نگاہوں نے مجھے کھینچ لیا اندر سے وہ بھی رو رو کے بجھا ڈالا ہے اب آنکھوں نے روشنی دیتا تھا جو ایک دیا اندر سے مژۂ ملتفت یار ہے بد نام عبث اس نے تو دل کا بس اک چاک سیا اندر ...

    مزید پڑھیے

    مری خاک اس نے بکھیر دی سر رہ غبار بنا دیا

    مری خاک اس نے بکھیر دی سر رہ غبار بنا دیا میں جب آ سکا نہ شمار میں مجھے بے شمار بنا دیا ترا نقش اترا سر ورق تو تصرف لب و چشم سے بھرے رنگ میں نے کچھ اس طرح اسے شاہکار بنا دیا ترے جزو جزو خیال کو رگ جاں میں پورا اتار کر وہ جو بار بار کی شکل تھی اسے ایک بار بنا دیا مجھے ننگ نقش ہی کب ...

    مزید پڑھیے

    سپرد غم زدگان صف وفا ہوا میں

    سپرد غم زدگان صف وفا ہوا میں پڑا ہوں عمر کی دیوار سے گرا ہوا میں عجیب سوچ سی اور اس پہ سوچتا ہوا میں کہ ٹوٹتا تری حیرت میں آئنا ہوا میں کہیں میں کوہ پہ فرہاد اور دشت میں قیس وجود عشق میں ہوں خود کو ڈھونڈھتا ہوا میں جسے بھی ملنا ہے مجھ سے وہ انتظار کرے نہ جانے کب پلٹ آؤں کہیں گیا ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    اظہار

    ہم نے سوچا اب شکستہ گھر مقفل نہیں ہو سکتے کواڑوں کے بغیر اچھے کواڑ اچھی عمارت کے بغیر ہم نے کچھ کالی تجارت سے کمائی کی ادھر کچھ جنگلوں کے چور اپنے یار تھے لکڑی خریدی اور کواڑوں اور کڑیوں میں گھڑی نقشے بنائے اور دیواریں چنیں ہم نے چھتیں ڈالیں نئی تعمیر کو ہر رنگ کی ہر آرٹ کی دھج ...

    مزید پڑھیے

    مزاحمتوں کے عہد‌ نگار

    ان سے کہنا کہ وہ اپنی اس جنگ میں اب اکیلے نہیں آج کی جنگ سب کی ہے اور سارے وقتوں کی ہے اپنے اپنے محاذوں کی دہلیز پر ہم بھی مورچہ بند اور صف بہ صف ان کے ہم دوش ہیں ہم کہ خاموش ہیں ہم کہ خاموش ہیں کیتلی کا تلاطم نہیں چیخنے کے ہنر شناسا نہیں بے محل حلق بازوں اندھیرے کے عف عف زنوں کی ...

    مزید پڑھیے

    رواں ہوں میں

    رواں ہوں میں اور اس روانی میں عہد در عہد کی جراحت نما بصارت کی خاک کا وہ بھنور ہے جس میں مرے شب و روز کا غبار سیہ مرے سنگ گھومتا ہے رواں ہوں میں اور خود پہ اور سب پہ ہنس رہا ہوں کہ میری مانند ہم سبھی وقت کی کھڑی سائیکل کا گردش پذیر پہیہ ہیں نا مسافت نو رو گرداں کہ نارسائی کے خشت ...

    مزید پڑھیے