Imrana Mushtaq Mani

عمرانہ مشتاق مانی

عمرانہ مشتاق مانی کی غزل

    ٹوٹے ہیں جب سے زور جنوں کی طناب کے

    ٹوٹے ہیں جب سے زور جنوں کی طناب کے حسرت سے دیکھتی ہوں یہ خیمے شباب کے اے دل نہ چھیڑ ذکر اسی خوش خرام کا میں پی چکی ہوں گھول کے شعلے گلاب کے زندان بزم شوق میں ایسے بھی رند ہیں تشنہ رہے جو پی کے سمندر شراب کے یہ بزم چشم و لب ہے مری جاں ابھی نہ جا بڑھنے دے رابطے یہ سوال و جواب ...

    مزید پڑھیے

    چلی جو خود سے کبھی ہو کے بد گمان ہوا

    چلی جو خود سے کبھی ہو کے بد گمان ہوا بکھر کے رہ گئی گلیوں کے درمیان ہوا عجب نہیں کہ دئے سے شکست کھا کے بھی چراغ پا نہ ہوئی اب کے بد زبان ہوا گزشتہ رات کی دہلیز پر سسکتے ہوئے سنا رہی تھی ہواؤں کو داستان ہوا ہوائیں باندھ رہا تھا جو ایک مدت سے پھر ایک روز وہی ہو گیا مکان ہوا نہ ...

    مزید پڑھیے

    کرب کے صحرا سے گزرا جب بھی دیوانہ کوئی

    کرب کے صحرا سے گزرا جب بھی دیوانہ کوئی مسکرایا شاخ نازک پر چمن خانہ کوئی موسم برسات ہے اور وجد میں ہیں لالہ زار دشمنوں کے وار سے چھلکا ہے پیمانہ کوئی رات بھر روتی رہی بے سود شمع آرزو جب سر محفل چلا آیا ہے پروانہ کوئی اجنبی بستی کے لوگوں سے ذرا نظریں ملا مل ہی جائے گا یہاں بھی ...

    مزید پڑھیے

    عنوان ہزاروں ہیں غزل کوئی نہیں ہے

    عنوان ہزاروں ہیں غزل کوئی نہیں ہے جھیلوں کے مناظر میں کنول کوئی نہیں ہے اے کاش کوئی دیکھے مرے ضبط کا عالم بے کل ہوں مگر ماتھے پہ بل کوئی نہیں ہے ہر چند کے ہم لوگ ہیں فردوس کے خالق دنیا میں مگر اپنا محل کوئی نہیں ہے حق بات کہو جب بھی کہو جان تمنا یہ بات ہے وہ جس کا بدل کوئی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    وفا جب زندہ ہوتی ہے جفا دم توڑ دیتی ہے

    وفا جب زندہ ہوتی ہے جفا دم توڑ دیتی ہے ستم گر کی ہر اک ظالم ادا دم توڑ دیتی ہے تکبر کی فصیلوں سے کبھی ہم رک نہیں سکتے کہ بچ کے روبرو جھوٹی انا دم توڑ دیتی ہے اگر مظلوم ٹکراتے ہیں دیوار مظالم سے تو گر جاتا ہے زنداں اور سرا دم توڑ دیتی ہے ثبوت بے گناہی کیوں نہ ہو میری گنہ گاری عطا ...

    مزید پڑھیے

    آ گیا وقت اگر پیار میں رسوائی کا

    آ گیا وقت اگر پیار میں رسوائی کا لوگ دیکھیں گے تماشا ترے سودائی کا روح سے جسم الگ کرنے کے پس منظر میں ہے کوئی ہاتھ یقیناً کسی ہرجائی کا جاں غم وصل کی اک شام منائیں آ جا شور سنتی ہوں سسکتی ہوئی شہنائی کا میں ترے پیار کو دنیا سے چھپاؤں کیسے رنگ آنکھوں سے برستا ہے شناسائی کا خیر ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بھولا ہوا یاد آ رہا ہے

    کوئی بھولا ہوا یاد آ رہا ہے غم دیرینہ کھائے جا رہا ہے ہزاروں زاویے بدلے نظر نے زمانہ مستقل بل کھا رہا ہے تعلق کچھ نہیں جس خوبرو سے رگ جاں میں وہ بستا جا رہا ہے خیالوں کی منڈیروں پر وہ آ کر بلا کی چاندنی برسا رہا ہے نظر منظر میں جس کو ڈھونڈھتی تھی وہ دل کی انجمن میں آ رہا ہے جسے ...

    مزید پڑھیے