ٹوٹے ہیں جب سے زور جنوں کی طناب کے

ٹوٹے ہیں جب سے زور جنوں کی طناب کے
حسرت سے دیکھتی ہوں یہ خیمے شباب کے


اے دل نہ چھیڑ ذکر اسی خوش خرام کا
میں پی چکی ہوں گھول کے شعلے گلاب کے


زندان بزم شوق میں ایسے بھی رند ہیں
تشنہ رہے جو پی کے سمندر شراب کے


یہ بزم چشم و لب ہے مری جاں ابھی نہ جا
بڑھنے دے رابطے یہ سوال و جواب کے


مانیؔ نہ آج پوچھ وہ کیسے بدل گئے
راہ جنوں میں نقش قدم ہیں جناب کے