کوئی بھولا ہوا یاد آ رہا ہے

کوئی بھولا ہوا یاد آ رہا ہے
غم دیرینہ کھائے جا رہا ہے


ہزاروں زاویے بدلے نظر نے
زمانہ مستقل بل کھا رہا ہے


تعلق کچھ نہیں جس خوبرو سے
رگ جاں میں وہ بستا جا رہا ہے


خیالوں کی منڈیروں پر وہ آ کر
بلا کی چاندنی برسا رہا ہے


نظر منظر میں جس کو ڈھونڈھتی تھی
وہ دل کی انجمن میں آ رہا ہے


جسے اہل جنوں کہتے ہیں مانیؔ
تڑپ کر سب کو وہ تڑپا رہا ہے