کرب کے صحرا سے گزرا جب بھی دیوانہ کوئی
کرب کے صحرا سے گزرا جب بھی دیوانہ کوئی
مسکرایا شاخ نازک پر چمن خانہ کوئی
موسم برسات ہے اور وجد میں ہیں لالہ زار
دشمنوں کے وار سے چھلکا ہے پیمانہ کوئی
رات بھر روتی رہی بے سود شمع آرزو
جب سر محفل چلا آیا ہے پروانہ کوئی
اجنبی بستی کے لوگوں سے ذرا نظریں ملا
مل ہی جائے گا یہاں بھی جانا پہچانا کوئی
اے دل مانیؔ یوں ہی منزل کبھی ملتی نہیں
راہ الفت میں دیا کرتے ہیں نذرانہ کوئی