Ibne Kanwal

ابن کنول

مابعد جدید افسانہ نگاروں میں شامل ۔کئی تنقیدی کتابوں کے مصنف۔ دہلی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ۔

One of the postmodernist story writers; author of several books of criticism.

ابن کنول کی رباعی

    تیسری دُنیا کے لوگ

    رات قبر کے اندھیرے کی طرح تاریک اور خاموش تھی ۔ چہار طرف مہیب سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ تھکے ہارے جسم زلفِ شب کی گھنی چھاؤں میں پناہ لے کر عالمِ خواب میں مست و سرشار تھے کہ اچانک چاروں سمتیں شفق کی طرح سرخ ہوگئیں ۔ رفتہ رفتہ وہ تمام روشنیاں نزدیک آتی گئیں ۔ ایک ہجوم تھا جو طوفانی ...

    مزید پڑھیے

    آخری کوشش

    جیل کی آہنی سلاخوں کے اندر رہتے ہوئے اسے پورا ایک مہینہ ہوچکا تھا۔ اس کے بدن کا ایک ایک جوڑ درد سے کراہ رہا تھا۔ کون کون سی اذیتیں تھیں جو اسے نہ دی جاچکی تھیں۔ لیکن وہ پتھّر کا آدمی خاموش تھا۔ جیل کے حکام گرمی میں زبان نکال کر ہانپتے ہوئے کتوّں کی طرح نالیوں میں بیٹھ چکے تھے۔ اور ...

    مزید پڑھیے

    ایک گھر کی کہانی

    وہ بالکل تنہا تھا ۔ لیکن کچھ دن پہلے وہ تنہا نہیں تھا ۔ اور اب وہ تنہائی کے ڈراونے جنگل سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر اس جاندار سے پوچھتا جو اس جیسا تھا ۔ ’’ کیا شہر میں اب بھی انسانوں کا قتل ہورہا ہے ؟ کیا اب بھی شہر جل رہا ہے ؟‘‘ ’’ہاں ‘‘ ایک لمبے عرصہ تک وہ اپنے سوالوں کا یہ ...

    مزید پڑھیے

    بند راستے

    ہند و پاک کے راستے کھلتے ہی اسے ایسا لگا کہ اب تک وہ نظر بند تھا اور اسے آزاد کیا گیا ہو۔ اس نے سب سے پہلا کا م یہ کیا کہ ہندستان جانے کے لیے ویزا منظور کروایا اور بہت جلد اپنے گاؤں کی گلیوں کو نگاہوں میں بسا کر لاہور سے روانہ ہوا ۔ اس نے اپنے آنے کی کسی کو اطلاع نہیں دی تھی ۔ وہ سوچ ...

    مزید پڑھیے

    ایک ہی راستہ

    وہ اندر ہی اندرآتش فشاں کی طرح پک رہا تھا اور اُس کے اندرایک اضطرابی کیفیت موجزن تھی ۔ اُس نے اپنے ذہنی اور قلبی سکون کے لیے تمام طریقے اختیار کر لیے تھے لیکن ہر بار ناکام رہا ۔ وہ بالکل مایوس ہو چکا تھا اسے یقین ہوگیا تھا کہ اس عالمِ آب وگل میں چہار جانب اس قدر انتشار پھیلا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    خانہ بدوش

    گذشتہ ستر سال سے بلال کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اور اس آواز کے ساتھ وہ صلاۃ اور فلاح کی طرف دوڑ پڑتا تھا۔ پہلی اذان کی آواز اس نے اس وقت سنی تھی جب ماں کے بدن سے الگ ہو کر باپ کی گود میں آنکھیں کھولی تھیں ۔ خدا کی وحدانیت، رسول کی شہادت اور فلاح کی جانب بڑھنے کا یہ ...

    مزید پڑھیے

    گرم سُوٹ

    تکیہ پر نئے غلاف کی طرح وہ اپنے بدن پر نیا سوٹ چڑھا کر کمرے سے باہر آیا خوشی سے اس کی بانچھے کھلی جارہی تھیں ۔ آج عرصۂ دراز کی آرزوئے دِلی عملی جامہ زیب تن کر کے اس کے رو برو آئی تھی ۔ اپنی بے انتہا مسرتوں کو اُچھالتے ہوئے اس نے رسوئی میں بیٹھی ہوئی شانتا کو آواز دی ۔ ’’ اے شانتا ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آگ اپنا گھر

    جوان بیٹے کا جنازہ صحن میں رکھا ہوا تھا پورے گھر میں ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ ہر چہرے پر افسوس و ملال تھا۔ عورتیں رو رو کر اپنا سر پیٹ رہی تھیں۔ ہر آنکھ نم تھی لیکن زبیدہ بالکل خاموش تھی، جس کا جوان بیٹا موت کی وادی میں کفن اوڑھے سو رہا تھا۔ اُس کی آنکھ سے ایک بھی آنسو نہیں نکلا تھا، ...

    مزید پڑھیے

    ابن آدم

    ہرروز کی طرح کمرے کی دیوار پر لگے ہوئے بلب کے نیچے د وموٹی موٹی چھپکلیاں بار بار منہ کھول کر بے بس کیڑوں کی نگل رہی تھیں اور وہ دونوں بھی ہر روز کی طرح اپنے تھکے ہارے جسموں کو لے کر بے جان کرسیوں پر آن پڑے تھے ۔ پھر ایک نے دوسرے سے سوال کیا : ’’ تم نے آج کیا دیکھا ؟ دوشرا کہنے ...

    مزید پڑھیے

    واپسی

    پندرہ سال کی طویل مدت کے بعد جیل کے آہنی پھاٹک کی کھڑکی سے ایک بوڑھے نے نکل کر باہر کی فضا کو اس طرح اجنبی نگاہوں سے دیکھا جیسے کسی دیہاتی کو لال قلعہ کے دیوانِ عام میں چھوڑ دیا گیاہو۔ بوڑھے کی ضعیف آنکھوں کے گرد سیاہی نمودار تھی۔ چہرے پر سیاہ اور سفید بالوں کی داڑھی بُھٹے میں ...

    مزید پڑھیے