آخری کوشش

جیل کی آہنی سلاخوں کے اندر رہتے ہوئے اسے پورا ایک مہینہ ہوچکا تھا۔ اس کے بدن کا ایک ایک جوڑ درد سے کراہ رہا تھا۔ کون کون سی اذیتیں تھیں جو اسے نہ دی جاچکی تھیں۔ لیکن وہ پتھّر کا آدمی خاموش تھا۔ جیل کے حکام گرمی میں زبان نکال کر ہانپتے ہوئے کتوّں کی طرح نالیوں میں بیٹھ چکے تھے۔ اور وہ خاموش آدمی دور لیکن بہت نمایاں منظرکو دیکھنے میں اس قدر محو تھا کہ اپنے قریب کی چیزیں اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تھیں……
انسانوں کے جسموں سے ابلتے ہوئے سرخ فوارے ہولی کے رنگ کی طرح سڑکوں کو رنگین کر رہے تھے ۔عورتوں اور بچّوں کی چیخ و پکار نے آسمان کے رونگٹے کھڑے کردیئے تھے۔ ہاتھوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی ہوئی چوڑیوں کے بوجھ سے زمین کانپنے لگی تھی۔ مانگوں سے سندور اُڑنے لگا تھا۔ دن کے اُجالے اور رات کے اندھیرے میں پکّی اور ادھ پکّی کلیاں ’اشرف المخلوقات‘ کے ہاتھوں بے دردی سے ٹوٹتی دیکھ کر قدرت انگشت بدنداں تھی۔ خون پسینے سے بنائے ہوئے لوگوں کے آشیانے اُجڑ رہے تھے۔ عجیب افراتفری کا ماحول تھا۔ ہر شخص اپنی زندگی کی حفاظت کے لئے اِدھر اُدھر چھپتا پھر رہا تھا۔ اس نے بھی اس طوفان سے بچنے کے لئے اپنے گھر کے تمام دروازوں کو مقفل کرلیا تھا۔ لیکن چادر اوڑھ لینے سے کب کوئی بارش سے بچ سکا ہے۔ اچانک اتنی زبردست آندھی دروازے سے ٹکرائی کہ دیواریں ہلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ دل کی حرکتیں ٹھہرتی ہوئی معلوم ہوئیں۔ انجلا، سونیا اور اُرمِلا خوف سے لرز گئیں اور اس کے اندر جذب ہونے کے لئے بے اختیار اس سے لپٹ گئیں۔ وہ خود گھبرایا ہوا تھا۔ دروازہ کھولنا موت کو دعوت دینا تھا۔ دروازہ برابر چیخ رہا تھا۔ اس کی دلخراش چیخوں سے جانے کتنے معصوم دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھیں۔ اچانک اسے لگا جیسے صحن میں کوئی کوُدا اور تیزی سے اس کمرہ کی طرف بڑھ آیا، جس میں وہ چاروں پناہ گزیں تھے۔ اب انہیں یقین ہوگیا کہ چند لمحوں میں کمرے کا دروازہ زمین سے جالگے گا۔ اور ان کے جسموں سے خون کے فوارے بہنے لگیں گے۔ ان کی نظروں میں ایک دوسرے کے خون میں لتھڑے ہوئے جسم نظر آنے لگے، دروازے پر آہستہ سے دستک ہوئی۔
’’رنجو کھولو - دروازہ کھولو رنجو- میں ہوں مجیدؔ - جلدی کرو رنجو - جلدی کھولو۔‘‘
مجید رنجو کا پڑوسی تھا ۔ بچپن ہی سے دونوں ساتھ ساتھ پڑھتے اور کھیلتے تھے۔ رنجیت تو پڑھ کر ایک بڑا افسر بن گیا تھا لیکن مجید پانچویں ، چھٹی جماعت تک پڑھ کر باپ کے ساتھ پھلوں کے کاروبار میں لگ گیا۔ رنجیت لاکھ بڑا افسر بن گیا لیکن ان دونوں کی دوستی میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا۔ دونوں جب ملتے تو اس طرح بغلگیر ہوجاتے جیسے برسوں کے بچھڑے ہوئے یار ملے ہوں۔ عید کی سوئیاں رنجیت، مجید کے یہاں بڑی بے تکلفی سے کھایا کرتا تھا اور مجید ہی کی طرح نئے کپڑے پہن کر اس کے ساتھ گھومتا ۔ ہولی کے رنگوں سے مجید اپنے سارے کپڑوں کو اس طرح رنگ لیتا کہ مجید خاں اور مجید سنگھ میں امتیاز کرنا دشوار ہوجاتا۔ ہندوستان کی تقسیم کا جب ذکر چلا تو مجید اور رنجیت نے یہ عہد کیا تھا کہ لاہور چاہے ہندوستان میں رہے یا پاکستان میں لیکن ہم لوگ لاہور ہی میں رہیں گے۔ مجید نے پھلوں کی تیار کی ہوئی اپنے بازوؤں کی مچھلیوں کو ابھارتے ہوئے کہا تھا:
’’ہے کوئی مائی کا لال، ہم تم کو علیحدہ کردے، سیب کی طرح کاٹ کر رکھ دوں گا۔‘‘
اتفاق کی بات جن دنوں یہ تاریخی حادثہ پیش آیا۔ مجید کابل میں تھا۔ سنتے ہی فوراً واپس آگیا۔ یہاں آکر عجیب منظر دیکھا۔ بڑے بڑے ہندو خاندان اپنی لمبی چوڑی کوٹھیوں کو چھوڑ کر خالی ہاتھ ہندوستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ دوسری طرف ہندوستان کے مسلمان اپنے بھرے پُرے گھروں کو چھوڑ کر پاکستان آرہے تھے۔ جس کو کوئی خالی مکان مل جاتا اسی پر قبضہ کرلیتا۔ بہت سے امیر اس تقسیم میں بھیک مانگنے لگے اور بہت سے فقیر دولت خاں اور دھنی رام بن گئے۔ مجید کو فوراً رنجیت کا خیال آیا ۔ وہ سوچنے لگا۔ کہیں رنجیت بھی ہندوستان کے لئے روانہ نہ ہوگیا ہو، یا زبردستی نکال دیا گیا ہو۔ جیسے ہی وہ اپنے محلے میں داخل ہوا اس کے کانوں سے نعرۂ تکبیر اﷲ اکبر کی زور دار صدا ٹکرائی۔ ویسے تو وہ پورے شہر میں اس طرح کی صدائیں سنتا چلا آرہا تھا۔ لیکن یہاں کچھ زیادہ ہی ہنگامہ تھا۔ وہ دوڑ کر اپنے گھر میں گھس گیا۔ گھر میں صرف عورتیں ہی تھیں۔ ایک جانب بوڑھا باپ اپنی کھانسی کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ باپ کے بلانے پر مجید اس کے پاس چلا گیا۔ اس نے اپنی کھانسی پر قابو پاتے ہوئے مجید سے کہا:
’’بیٹے! اس وقت تم اپنی دوستی کا حق ادا کرو — دیکھو غنڈے رنجو کا دروازہ توڑے ڈالتے ہیں— تھوڑی دیر میں دروازہ ٹوٹ جائے گا— اور وہ سب کو مار ڈالیں گے— بیٹے وہ ہندو ہیں تو کیا ہوا آخر انسانیت بھی تو کئی چیز ہے — جاؤ انہیں اس گھر میں لے آؤ — اگر وہ کہیں تو حفاظت سے ہندوستان پہنچانے کا انتظام کردینا۔‘‘
مجید اور رنجیت کے گھر میں صرف ایک دیوار کی دوری تھی۔ وہ دیوار کود کر رنجیت کے گھر پہنچ گیا۔ اس وقت رنجیت کے گھر والے عجیب کش مکش میں مبتلا تھے۔ وہ طے نہیں کر پارہے تھے کہ دورازہ کھولے یا نہیں ۔ آخر مجید بھی تو مسلمان ہے۔ وہ ہی ہمارا کیوں بھلا چاہنے لگا۔ ممکن ہے وہ باتیں بناکر دروازہ کھلوانا چاہتا ہے۔ مجید برابر پکار رہا تھا۔
’’رنجو دیر مت کرو— جلدی دروازہ کھولو‘‘
’’مجید ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو— ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا قاتل ہمارا …… ‘‘ رنجیت کی مری ہوئی آواز نکلی لیکن اس نے بات پوری نہیں کی۔
’’رنجیت ، تم مجھ پر — اتنا ذلیل مت سمجھو— دیکھو جلدی دروازہ کھول دو— باہر کا دروازہ ٹوٹنے ہی والا ہے۔‘‘
اور پھر رنجیت نے یہ سوچ کر دروازہ کھول دیا کہ مرنا تو ہے ہی— خواہ کسی کے ہاتھ سے —دروازہ کھلتے ہی مجید فوراً ان چاروں کو باہر لے آیا۔ رنجیت کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اس کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہ تھا۔ ان لوگوں نے اپنی چیزیں تھوڑی تھوڑی کرکے الگ الگ باندھ کر آپس میں بانٹ لی تھیں۔ یہ سوچ کر شاید کبھی بھاگنے کا موقع مل جائے۔ مجید نے جلدی جلدی ان چاروں کو دیوار سے اپنے گھر میں اُتارا۔ ان سب کے اُترتے ہی ایک زور دار دھماکہ ہوا جس سے عورتوں کی چینخیں نکلتے نکلتے رہ گئیں۔ رنجیت کا دروازہ ٹوٹ کر گرچکا تھا۔ اور دروازہ توڑنے والے تیزی سے اندر گھس آئے تھے۔ مجید نے سکون کا سانس لیا۔ اور ان لوگوں کو اپنے گھر میں چھپا دیا۔ رنجیت کا برسوں کی محنت سے بنایا ہوا مکان اُجڑ چکا تھا۔ اس کے کانوں سے اس کے گھر سے آنے والی آوازیں ٹکرائیں :
’’سالے بھاگ گئے؟‘‘
’’ابے یار اس کے ہاں دو لونڈئیے بھی تو تھیں؟‘‘
’’جائیں گے کہاں بھاگ کر‘‘
رنجیت نے یہ آواز پہچان لی تھی۔ یہ مسیتے ٹال والے کی آواز تھی جس سے بہت دن پہلے کچھ توُ توُ میں میں ہوگئی تھی۔ شاید آج بدلہ لینے آیا تھا۔ مسیتے نے زور سے آواز لگائی:
’’لگادیؤ سالے کافر کے گھر میں آگ - لوٹ لیؤ سب‘‘
مسیتے کے ساتھیوں نے سامان توڑنا پھوڑنا شروع کیا۔ مجید لاٹھی لے کر دیوار کی طرف دوڑا۔ رنجیت نے اسے پکڑ لیا۔
’’نہیں جاؤ مجید— لوٹنے دو‘‘ لیکن مجید تڑپنے لگا۔
’’چھوڑ دو رنجو! — دیکھوں سالوں کو کیسے لوٹتے ہیں — حرام کا مال سمجھ رکھا ہے۔‘‘
رنجیت نے اسے چھوڑا نہیں۔
’’مجید تم اگر وہاں جاؤگے تو میری لاش دیکھوگے ، تمہیں میری قسم‘‘۔
مجید ڈھیلا پڑ گیا۔رنجیت اس کی جان بچانا چاہتا تھا کیونکہ اسے لگ رہا تھا کہ یہاں پر اگر کوئی ساتھ دے سکتا ہے تو وہ صرف مجید ہے اور اگر مجید ہی چلا گیا تو پھر وہ تنہا رہ جائیں گے۔ تھوڑی دیر تک توڑپھوڑ کی آوازیں آتی رہیں۔ پھر وہ ہنگامی جلوس اﷲ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ آج کسی غیر مسلم کو پاکستان میں نہیں رہنے دیں گے۔ آہستہ آہستہ وہ آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔ رنجیت اور اس کے گھر والوں کو یقین ہوا کہ وہ زندہ ہیں۔ رنجیت نے مجید کو تشکّر آمیز نگاہوں سے دیکھا۔
’’مجید — مجھے فخر ہے کہ تم میرے دوست ہو۔ تمہارے اس احسان کا بدلہ میں زندگی بھر نہ چکا سکوں گا۔‘‘
’’پاگل ہوگئے ہو کیا—؟ احسان کیسا؟ — ہاں اگر میں نہ آپاتا تو زندگی بھر اپنے آپ سے شرمندہ رہتا ۔ رنجو! اُرملا اور سونیا میرے لیے سائرہ اور طاہرہ کی طرح ہیں۔ اب جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے ، تم اسی گھر میں رہو۔ تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘
’’نہیں مجید! اب ہم ہندوستان جائیں گے۔ دلّی میں سُرجیت کا بڑا بزنس ہے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’تم یہیں رہوگے۔ بھول گئے ہم نے وعدہ کیا تھا۔‘‘ مجید نے رنجیت کی بات کاٹی۔
مجید ہمیں جانے دینا ۔ تمہارا اتنا اور احسان ہوگا کہ ہمیں لاری میں سوار کرادینا۔‘‘ رنجیت بہت زیادہ خوفزدہ ہوگیا تھا۔ اس نے ہندوستان جانے کا ارادہ پکاّ کرلیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا، جیسا گھر وہ یہاں چھوڑ کر جارہا ہے ویسا ہی اسے وہاں مِل جائے گا۔ مجید نے محسوس کرلیا کہ اب وہ یہاں نہیں رہیں گے۔
’’دیکھو رنجو! تم نے پھر احسان کہا— احسان کیسا—؟ رنجو ! دل تو نہیں چاہ رہا ہے کہ تم یہاں سے جاؤ۔ ہمیشہ ساتھ رہے، اب ساتھ چھوٹ جائیگا۔ لیکن تم جانا ہی چاہتے ہوتو تمہاری مرضی۔ خدا تمہاری حفاظت کرے۔ لیکن تم وہاں جاکر اپنی خیریت کی اطلاع ضرور دیتے رہنا۔ اور جب کبھی موقع ہو، ملنا۔‘‘ مجید کی آواز بھرّا گئی۔
دوسرے دن مجید سب کی نظروں سے بچاتا ہوا ان لوگوں کو لاری میں سوار کرانے کے لیے ساتھ ساتھ گیا۔ لاری میں سوار ہوتے وقت وہ دونوں اس طرح بغل گیر ہوئے جیسے اب کبھی نہ مل سکیں گے۔ ان کی آنکھیں چھلک آئی تھیں۔ لاری بالکل بھری ہوئی تھی۔ مجید جاتی ہوئی لاری کو اس وقت تک دیکھتا رہا، جب تک وہ نظر آتی تھی۔
ہندوستان دو ملکوں میں تقسیم ہوچکاتھا۔ درمیان میں سرحد قائم ہوگئی۔ سرحد پر پہنچ کر تمام سواریاں لاری سے اُتاری گئیں۔ یہاں سے دوسری لاری میں سوار ہونا تھا۔ بھیڑ بکریوں کی طرح بھری ہوئی سواریوں نے اُترنا شروع کیا۔ رنجیت انجلا کے ساتھ آگے کے دروازے سے اُتر کر سونیا اور اُرملا کے اُترنے کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن تمام سواریاں اُتر جانے کے باوجود بھی وہ نہیں اُتریں۔ کئی اور لوگ بھی اپنی سواریوں کو تلاش کر رہے تھے۔ رنجیت کی فکر مند نظریں بے چینی سے اِدھر اُدھر دوڑ رہی تھیں۔ اس نے لاری کے اندر جھانکا۔ لاری بالکل خالی تھی۔ اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ وہ دونوں اس کے پیچھے پیچھے ہی چڑھی تھیں۔ وہ تیزی سے ڈرائیور کی طرف بڑھا۔
’’اس میں دو لڑکیاں سوار ہوئیں تھیں۔ وہ کہاں گئیں؟‘‘
ڈرائیور نے ایک بار اس کے چہرے کو دیکھا اور مسکرایا۔
’’ابے مجھے کیا معلوم— بھاگ گئی ہوں گی کسی کے ساتھ۔ آج کل تو لونڈئیے بڑی سستی ہورہی ہیں ، کوئی اور دیکھ لے۔‘‘
رنجیت کے جی میں آیا کہ وہ ڈرائیور کا منہ نوچ لے، لیکن اس کی حیثیت تو یہاں دن کے تارے کی سی تھی، جس کی چمک پر آفتاب کی روشنی غالب آجاتی ہے۔ وہ خاموشی سے وہاں سے ہٹ گیا۔ وہ سوچنے لگا لاری راستے میں دو مرتبہ رُکی کیوں تھی؟ پاس کھڑا ہوا ایک بوڑھا آدمی اس کے قریب آیا جو اُسی لاری سے اُترا تھا۔
’’بیٹے کیا تمہارے ساتھ بھی لڑکیاں تھیں ؟— راستے میں جو ذرا سی دیر کو لاری رُکی تھی۔ اس تھوڑے سے وقت میں پچھلی کھڑکی سے دو تین لڑکیوں کو نیچے اتار لیا گیا تھا۔‘‘ بوڑھا اتنا کہہ کر دوسری طرف چلا گیا۔
وہاں کوئی کسی کا غمخوار نہیں تھا۔ ہر شخص اپنی ذات میں گُم تھا۔ مال بدلا جارہا تھا۔ ہندوستان کا ایسا مال جو پاکستان جانا چاہتا تھا، پاکستان بھیجا جارہا تھا، جو کچھ دن پہلے ہندوستان ہی تھا۔ اور پاکستان کا مال ہندوستان بھیجا جارہا تھا جس کا جنم ہندوستان کے دائیں بائیں پہلوؤں سے ہوا تھا۔ رنجیت خاموشی سے انجلا کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔ نہ انجلا نے کچھ پوچھا، نہ ہی اس نے کچھ بتانا چاہا۔ اس کی متفکر نگاہیں بار بار آتی ہوئی لاریوں میں سے اُترتی ہوئی سواریوں پر پڑ رہی تھیں۔ لیکن مایوسی کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ اندھیرا آہستہ آہستہ بڑھتا جارہا تھا۔ جو مسافر بچے ہوئے تھے، وہ وہیں آرام کررہے تھے۔ رنجیت اور انجلا بھی بیٹھ گئے۔ انجلا نے ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے آلو بھرے پراٹھے نکالے جو مجید کی ماں نے ان لوگوں کے لیے بناکر رکھ دیئے تھے۔ دل تو بالکل نہ چاہ رہا تھا، لیکن بھوک پریشان کر رہی تھی۔ تھوڑا بہت کھایا، باقی باندھ کر رکھ دیا۔ لاریاں اب بھی آجارہی تھیں، لیکن سونیا اور اُرملا کا کہیں پتہ نہ تھا۔ رات کی سیاہی تیز ہوتی جارہی تھی۔ تھکے ماندے، بے گھر مسافر تھکے ہوئے پرندوں کی طرح شاخوں پر اُونگھ رہے تھے۔ رنجیت اور انجلا بھی کچھ دور لیٹ گئے۔ لیکن نیند ان کی آنکھوں کے آس پاس بھی نہ تھی۔ ایسے میں نیند آتی بھی کیسے، جب دو جوان لڑکیاں اچانک غائب ہوگئی ہوں۔ رات کے اس نیم سنّاٹے میں دور ایک باغ کی جانب سے ہواؤں کے دوش پر لہراتی ہوئی ایک مظلوم کی چیخ سنائی دی۔
’’بچاؤ — بچاؤ‘‘
لیکن کوئی اس چیخ پر چوکا نہیں۔ جب سے اس ہجرت کا آغاز ہوا ہے، ہر رات اور اکثر دن میں بھی اس طرح کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ سنتے سنتے لوگوں کو عادت سی پڑ گئی ہے۔ لیکن رنجیت اس چیخ پر چونک پڑا۔ اُسے لگا جیسے یہ آواز اس کے اپنے خون کی ہے۔ انجلا اس آواز کی طرف بھاگتے بھاگتے رہ گئی۔ رنجیت دوڑ پڑا۔ یہ اُرملا کی آواز تھی۔ رنجیت کے پیچھے پیچھے انجلا بھی بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن وہ بھاگتے بھاگتے راستے ہی میں ساڑی سے الجھ کر گرگئی۔ رنجیت بہت جلد اُرملا کے قریب پہنچ گیا۔ دوڑ کر آتی ہوئی اُرملا اس سے لپٹ گئی۔ اس کے تمام کپڑے پھٹ چکے تھے۔ جسم بُری طرح کانپ رہا تھا۔ رنجیت نے اسے بازوؤں کا سہارا دیا۔
’’کیا بات ہے بیٹی؟‘‘
’’بابا —بابا — بچاؤ— بچاؤ— دیدی —بچاؤ‘‘
رنجیت سمجھ گیا، اُرملا کو آہستہ سے زمین پر لٹایا اور تیزی سے سونیا کو بچانے کے لیے باغ کی طرف دوڑا۔ اُرملا بے ہوش ہوچکی تھی۔ اندھیرے باغ میں وہ اس جانب بڑھا، جہاں سے کچھ قہقہے بلند ہورہے تھے اور کچھ گھٹی گھٹی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ رنجیت جیسے ہی ان کے قریب پہنچا، اس کے سر پر کسی نے پوری طاقت سے لاٹھی ماری۔ وہ چکرا کر گرگیا۔
’’دیکھا بابو ہم سے دُشمنائی لینے کا مزہ!‘‘
رنجیت آواز کو پہچان گیا۔ یہ اسی مسیتے کی آواز تھی۔ جس نے رنجیت سے لڑائی ہوتے وقت کہا تھا۔
’’تیری تو میں نے زبان نہ کھنچوالی تو میرا نام مسیتے نہیں۔‘‘
رنجیت نے آنکھیں کھول کر اطراف کا جائزہ لیا۔ کئی بھیانک آدمی اس کے اِرد گِرد کھڑے تھے، اچانک اس کی نگاہ اس جگہ پر پہنچی جہاں سونیا بالکل برہنہ حالت میں پڑی ہوئی ہانپ رہی تھی۔ رنجیت نے تیزی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن مسیتے کی ایک ٹھوکر نے اسے پھر اوندھے منہ گرادیا۔
’’جاتا کہاں ہے— اس کا کیا کرے گا اب— آج تو تجھ سے وعدے پورے کرنے ہیں۔‘‘
تقریباً پندرہ دن بعد جب رنجیت کوو ہوش آیا تو وہ کسی دوسرے ہی مقام پر تھا۔ اب وہ تنہا تھا۔ انجلا، اُرملااور سونیا ہندوستان کی تقسیم کے ساتھ اس سے بچھڑ چکی تھیں۔ کئی روز تک رنجیت امرتسر کے ایک اسپتال میں داخل رہا۔ اسپتال سے نکلنے کے بعد جگہ جگہ وہ اپنے گھر والوں کو تلاش کرتا رہا۔ لیکن انہیں نہ ملنا تھا، نہ ملے۔ اسے سب کچھ یاد تھا کہ کس طرح انجلا بھاگتے بھاگتے گِر پڑی تھی۔ اُرملا اس کی بانہوں میں آکر بے ہوش ہوگئی تھی۔ سونیا درندوں کے درمیان بالکل برہنہ زمین پر پڑی ہوئی تھی۔ وہ ان سب مناظر کو بھُلا نہ سکا۔ بھول بھی کیسے سکتا تھا۔
جب سے رنجیت ہندوستان آیا تھا، اُسے کسی نے بولتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ خاموش رہتا۔ اب وہ کچھ برسوں سے پاکستان جاکر اپنے گھر والوں کو تلاش کرنا چاہتا تھا۔ لیکن جاتا کیسے؟ اس کے پاس پیسے بھی تو نہ تھے۔ مسلسل اس بات کی کوشش کرتا رہا کہ کہیں سے پیسوں کا انتظام ہوجائے، لیکن بہ یک وقت اسے اتنے پیسے نہ مل سکے۔ جانے کتنے بھائی بہن، ماں بیٹے اور دوسرے رشتے دار ہندوستان پاکستان میں ایسے ہوں گے جو صرف اس وجہ سے آپس میں نہیں مِل سکتے کہ ان کے پاس فاصلوں کو طے کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔
جب سے ہندوستان و پاکستان میں سمجھوتہ ہوکر آمد و رفت شروع ہوئی۔ رنجیت پاکستان جانے کے لیے اور بھی بے چین ہوگیا۔ اس بار اس نے طے کرلیا تھا کہ وہ کسی طرح بھی پاکستان ضرور جائے گا، اور پھر ایک دن وہ بغیر ٹکٹ و پاسپورٹ کے امرتسر سے لاہو رجانے والی گاڑی میں سوار ہوگیا۔ اِدھر اُدھر ڈبّے تبدیل کرتا ہوا وہ پاکستان کی سرحد تک پہونچ ہی گیا۔ لیکن جب وہاں پر پولیس نے گاڑی چیک کی تو زیادہ دیر تک وہ ان کے ہاتھوں نہ بچ سکا۔ اس نے ایک ٹوائیلیٹ میں گھس کر اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ لیکن دروازہ کھول لیا گیا اور اسے گرفتار کرکے امرتسر روانہ کرکردیا گیا۔
امرتسر جیل میں پہنچ کر اس کی تلاشی لی گئی۔ اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ طرح طرح کی تکلیفیں دے کر اس سے پوچھا گیا، لیکن اس کے منہ سے ایک حرف بھی نہ نکلا۔ اس کی مسلسل خاموشی نے جیل کے حکام کو اور بھی شبہات میں مبتلا کردیا۔ شاید رنجیت اب مرنا چاہتا تھا۔ وہ اب تک اس امید پر زندہ تھا کہ اس کے گھر والے اسے مل جائیں گے۔ لیکن اب اسے ذرا بھی امید نہیں تھی، وہ جیل کی چہار دیواری میں رہنا نہیں چاہتا تھا اور پھر ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ اس بوڑھے رنجیت نے اس طرح جیل کی پتھریلی دیوار سے اپنے سر کو ٹکرایا جیسے کوئی خطرناک جنگلی بھینسا پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے۔ جیل کے سبھی حکام اور قیدی اس کی طرف دوڑ پڑے ۔ ایک کانسٹبل دوڑ کر پانی لایا۔ لیکن جب جیلر نے پانی پلانے کے لئے اس کا منہ کھولا تو اس کا ہاتھ کپکپا گیا۔ اس کے ہاتھ سے گلاس گرتے گرتے بچا۔ جیلر سمجھ گیا کہ یہ شخص اب تک کیوں خاموش تھا۔ رنجیت کے منہ میں زبان نہیں تھی۔ ہندوستان کی تقسیم نے اس کے منہ سے زبان چھین لی تھی تاکہ وہ آنکھوں سے دیکھی ہوئی اپنے گھر کی تباہی کو کسی کے سامنے بیان نہ کرسکے۔ رنجیت ہمیشہ کے لئے جاچکاتھا۔
ہلکی ہلکی گرم ہوا چل رہی تھی۔ درختوں پر گرمی سے ہانپتے پرندے خاموش بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے جیسے ان کی بھی زبانیں چھین لی گئی ہوں تاکہ جیل کے اندر ہونے والی باتوں کو باہر تک نہ پہنچا سکیں۔