اپنی آگ اپنا گھر
جوان بیٹے کا جنازہ صحن میں رکھا ہوا تھا پورے گھر میں ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ ہر چہرے پر افسوس و ملال تھا۔ عورتیں رو رو کر اپنا سر پیٹ رہی تھیں۔ ہر آنکھ نم تھی لیکن زبیدہ بالکل خاموش تھی، جس کا جوان بیٹا موت کی وادی میں کفن اوڑھے سو رہا تھا۔ اُس کی آنکھ سے ایک بھی آنسو نہیں نکلا تھا، وہ بالکل نہیں روئی تھی، ایسا لگتا تھا جیسے اس کا بدن بھی بے جان ہوگیا ہے۔ اس کے ارد گرد بیٹھی خواتین چاہتی تھیں کہ زبیدہ بھی بیٹے کی موت پر چیخ چیخ کر روئے تاکہ اس کے دل کا غبار نکل جائے۔ لیکن اپنے آس پاس بیٹھے لوگوں سے بے خبر وہ اپنی پچیس سال کی محنت کو یاد کررہی تھی……
چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی تھی اونچے اونچے درخت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے۔ جھرنے سے بہتے ہوئے پانی کی آواز نے ماحول میں موسیقی کا سماں باندھ دیا تھا۔ نوجوان زبیدہ اپنے شوہر غلام احمد کے ساتھ موسم کا لطف اُٹھا رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھی۔ اُسے خوش دیکھ کر غلام احمد کہنے لگا۔
’’کیا بات زوبی آج بہت خوش ہو‘‘
’’ہاں۔ بات ہی کچھ ایسی ہے‘‘ زبیدہ نے کچھ ہنستے اور شرماتے ہوئے کہا
’’اپنی خوشی میں ہمیں شریک نہیں کروگی‘‘
’’میری ہر خوشی پر پہلے آپ کا حق ہے۔‘‘ زبیدہ نے فلسفیانہ انداز میں کہا ۔
’’پھر کہو نا۔ یا یوں ہی پہیلیاں بجھاتی رہو گی‘‘ غلام احمد خوش خبری سننے کے لئے بے چین تھے۔
’’ یہی سمجھئے۔ پہیلی ہی سہی۔ بتائیے تو جانیں‘‘
’’اچھا زیادہ صبر کا امتحان نہ لو۔ مجھے تمہاری کسی پہیلی کا جواب نہیں معلوم‘‘
’’اور قریب آئیے۔ بلند آواز سے کہنے کی بات نہیں ہے۔‘‘
’’اوفوہ! تم تو خواہ مخواہ بات کو طول دے رہی ہو۔ لو آگیا‘‘۔ غلام احمد زبیدہ کے بالکل قریب آگیا۔ زبیدہ نے بہت آہستہ سے اس کے کان میں اپنی خوشی کی وجہ بتائی تو غلام احمد بھی خوشی سے اُچھل پڑا اور اس نے زبیدہ کو گود میں اُٹھا لیا۔ زبیدہ تلملائی:
’’ارے کیا کرتے ہو۔ چھوڑومجھے‘‘
’’نہیں بالکل نہیں۔‘‘ ایسی خوش خبری اور اتنی خاموشی سے۔‘‘ غلام احمد نے اس کی پیشانی کو چوم لیا اور کہا:
’’اب تمہارا وجود مکمل ہو جائے گا۔ عورت کے وجود کی تکمیل اس کے ماں بننے کے بعد ہی ہوتی ہے۔‘‘
دونوں بہت خوش تھے……
……جنازہ اب بھی صحن میں رکھا ہوا تھا۔ عورتیں زبیدہ کے چہرے پر اطمینان اور سکون دیکھ کر یہ محسوس نہیں کر پائیں کہ یہ خیالات کی کس وادی میں گم ہے۔ وہ چاہتی تھیں کہ زبیدہ کا سُکوت ٹوٹ جائے لیکن زبیدہ سب سے بے نیاز اپنے کانوں میں بچےّ کے ہنسنے کی آواز محسوس کررہی تھی……
…… سات آٹھ سال کا اقبال کھلکھلا کر ہنس رہا ہے۔ پاس بیٹھا غلام احمد بھی اس کی ہنسی میں شریک ہے۔ اسی کمرے میں ایک جانب بیٹھی زبیدہ کچھ سی رہی ہے۔ اقبال ہنستے ہوئے ماں سے کہتا ہے۔
’’اماّں دیکھو اباّ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ تاج محل کس نے بنوایا میں کہہ رہا ہوں،شاہ جہاں بادشاہ نے ، اباّ کہہ رہے ہیں شہاب الدین نے ۔ شہاب الدین میرے دوست نورالدین کے ابّا کا نام ہے وہ بھی کوئی تاج محل بنوا سکتے ہیں۔‘‘
زبیدہ بھی اس بات پر ہنسنے لگی ہے۔ اقبال پھر کہتا ہے:
’’اماّں ہنسنے کی بات نہیں۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ دیکھو میری کتاب میں لکھا ہے۔‘‘
’’ہاں بیٹا آپ سچ کہہ رہے ہیں اور آپ کی کتاب میں سچ لکھا ہے۔‘‘ زبیدہ سمجھانے والے انداز میں کہتی ہے۔ اقبال اپنی معصوم زبان سے غلام احمد سے فرمائش کرتا ہے:
’’اباّ ہمیں سری نگر لے چلو۔ سری نگر بہت خوبصورت ہے نا۔‘‘
’’ہاں بہت خوبصورت ہے۔ زمین پر جنّت ہے۔ لیکن تم بڑے ہو جاؤپھر وہاں تمہیں پڑھنے کے لئے بھیجیں گے۔ دیکھو زبیدہ میں تو غریبی کا شکار ہو کر کچھ بھی نہ کرسکا، لیکن اپنے بیٹے کو خوب پڑھاؤں گا، اسے ایسا آدمی بناؤں گا جس پر ملک اور قوم دونوں کو فخر ہوگا۔‘‘
’’کیوں ابّا کیا میں بڑے ہو کر ہی سری نگر جاسکتا ہوں پھر تو بہت انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
’’نہیں تم اب بھی جاسکتے ہو ، جب تمہارے اسکول کی چھٹّی ہوگی تو چلیں گے۔ اماّں کو بھی لے چلیں گے۔‘‘
اسی وقت ایک چھوٹی سی بچّی کمرے میں سلام کرتی ہوئی داخل ہوتی ہے۔
’’خالوجان سلام علیکم -خالہ امی سلام علیکم‘‘
بچّی اقبال کے پاس بیٹھتی ہوئی پوچھتی ہے:
’’کیا کررہے ہو اقبال ؟‘‘
’’سنو گل زیب ہم ابّا کے ساتھ سری نگر جائیں گے۔ تم بھی ہمارے ساتھ چلنا بہت مزہ آئے گا۔‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے۔ میں امّی سے کہہ دوں گی۔‘‘
دونوں بچےّ خوش ہوتے ہیں۔ غلام احمد زبیدہ سے یہ کہتے ہوئے اُٹھ کر باہر جانے لگتا ہے :
’’ میں رشید بھائی کے پاس جھیلم کی طرف جارہا ہوں ۔ وہ کوئی نیا کام شروع کرنے والے ہیں۔ ہو سکتا ہے مجھے دیر ہو جائے تم کھانا کھا لینا۔‘‘
اور پھر ایسی دیر ہوئی کہ غلام احمد اپنے قدموں سے نہ لوٹ سکا۔ سڑک کے حادثے میں اس کی موت ہوگئی۔ غلام احمد کی لاش کو دیکھ کر زبیدہ چیخ چیخ کر روئی تھی، دیواروں سے سر پٹکتی تھی اور کہتی تھی کہ ’’مجھے کس کے سہارے چھوڑ گئے۔ اب کون تمہارے بیٹے کو بڑا آدمی بنائے گا۔ کون اسے سری نگر لے جائے گا۔‘‘
نادان اقبال رو رو کر پوچھ رہا تھا کہ’’ میرے ابّا کو کیا ہوگیا۔ یہ بولتے کیوں نہیں۔‘‘
…… لیکن آج اقبال کی موت پر زبیدہ چیخ و پکار نہیں کررہی تھی۔شاید اسے موت کا یقین نہیں تھا یا وہ روتے روتے تھک چکی تھی۔ غلام احمد کی موت کے بعد وہ زندگی بھر روتی ہی رہی تھی۔ اُس کی بوڑھی ماں اُسے گلے لگا کر سمجھا رہی تھی۔
’’رولے ۔ میری بچّی رولے۔ جی ہلکا ہو جائے گا۔ ہم عورتوں کا تو مقدر ہی عجیب ہے۔ شوہر کے مرنے پر دنیا کی خوشیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ لیکن اولاد کے مرنے پر تو دنیا ہی ختم ہو جاتی ہے۔ جوان اولاد کی موت کاغم شوہر کی موت کے غم سے بھی بڑا غم ہے۔‘‘ زبیدہ نے اپنی ماں کو روتا دیکھ کر بہت آہستہ سے کہا:
’’اماّں تم کیوں رو رہی ہو۔ وہ دیکھو اقبال اسکول جارہا ہے کتنا اچھا لگ رہا ہے میرا بچّہ‘‘ اتنا کہہ کر زبیدہ غور سے ایک طرف دیکھنے لگی۔
…… صبح ہو چکی تھی زبیدہ نے جلدی جلدی ناشتہ بناکر اقبال کو دیا اور پھر اُسے پڑھنے کے لئے اسکول بھیج دیا۔ اقبال کے جانے کے بعد غلام احمد کے بڑے بھائی غلام رسول کھانستے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ زبیدہ نے سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے سلام کیا۔
’’دلہن میں تم سے یہ کہنے آیا تھا کہ اقبال کو کب تک پڑھاتی رہو گی۔ پڑھائی کے لئے اچھا خاصا پیسہ چاہئے۔ میری رائے ہے کہ علی بخش کے ساتھ کام پر بھیج دو۔ کچھ ہنر ہاتھ میں آجائے گا تو زندگی اچھی گزر جائے گی۔‘‘
’’نہیں بھائی صاحب۔ ابھی تو اقبال کے پڑھنے کی عمر ہے۔ کام کے لئے تو زندگی پڑی ہے۔‘‘ زبیدہ آہستہ سے کہتی ہے۔ غلام رسول کو یہ اچھاّ نہیں لگتا۔
’’جیسی تمہاری مرضی۔ اور ہاں ایک بات اور۔ علی بخش کی ماں نے تم سے کہا ہوگا بشیرالدین کے رشتے کی بات۔ بشیرالدین اچھاّ آدمی ہے کاروباربھی اچھاّ ہے۔ تم اگر ہاں کردو تو جلد شادی ہو جائے تمہاری زندگی بھی اچھّی گزر جائے گی اور اقبال کی پرورش بھی صحیح ہو جائے گی۔‘‘
زبیدہ کو یہ بات بہت ناگوار گزری اس نے جواب دیا:
’’خدا کے واسطے میرے سامنے اس طرح کی بات نہ کیجئے۔ میں کتنی بار منع کرچکی ہوں۔ عورت کو آپ لوگ اتنا کمزور کیوں سمجھتے ہیں۔ کیا میں اپنے بچےّ کو اچھّی تعلیم نہیں دلوا سکتی۔ اﷲ نے چاہا تو اس کی پرورش اسی طرح ہوگی جس طرح اس کے باپ کی موجودگی میں ہوتی۔‘‘
غلام رسول اُٹھ کر چلا جاتا ہے۔
زبیدہ کسی کی بات پر دھیان نہیں دیتی۔ وہ اپنی پوری توجہ اقبال کی تربیت اورتعلیم پر لگاتی ہے۔ دن رات محنت کرتی ہے۔ لوگوں کے کپڑے سی سی کر گھر کا خرچ چلا تی ہے۔ وقت گزرتا ہے، اقبال اسکول کی تعلیم پوری کرلیتا ہے۔ پھر ماں سے کہتا ہے۔
’’اماں میں بھی اب کام کروں گا۔ تم کب تک اس طرح محنت کرتی رہو گی۔‘‘
زبیدہ اسے سمجھاتی ہے:
’’بیٹا ابھی تیری تعلیم مکمل نہیں ہوئی ہے۔ ابھی تو تجھے شہر پڑھنے جانا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تو بہت بڑا آدمی بنے۔ تیرے ابّا کہا کرتے تھے کہ میں اپنے بیٹے کو ایسا آدمی بناؤں گا جس پر ملک اور قوم فخر کرے، تو ان کے خواب کو پورا نہیں کرے گا؟‘‘
’’لیکن امّاں اس کے لئے تو گاؤں سے باہر تمہیں چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ پھر تم اکیلی کیسے رہوگی۔‘‘
اُسی وقت گل زیب اندر آتی ہے۔ زبیدہ فوراً کہتی ہے:
’’میں اکیلی کہاں ہوں۔ میرے پاس گل زیب رہے گی۔‘‘
’’ہاں اماّں یہ ٹھیک ہے۔ اسے تو تم ہمیشہ کے لئے خالہ امّی سے مانگ لو‘‘
گل زیب شرما سی جاتی ہے۔ زبیدہ ہنستی ہوئی اقبال کو ڈانٹتی ہے:
’’چپ شیطان کہیں کا۔ گل زیب کا ہی تو گھر ہے یہ‘‘
زبیدہ دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے تو اقبال گل زیب کے قریب آکر کہتا ہے:
’’کیوں گل زیب میں چلا جاؤں گا تو مجھے یاد نہیں کروگی؟‘‘
گل زیب تھوڑا شرماتی ہے لیکن مصنوعی انداز میں کہتی ہے:
’’میں بھلا کیوں یاد کرنے لگی۔ تمہیں یاد کروگے۔‘‘
’’اچھاّ دیکھتے ہیں کون یاد کرتا ہے؟‘‘
’’دیکھ لینا‘‘
…… مےّت کے اطراف اب بھی سوگوار افراد کا ہجوم ہے۔ عورتوں میں گل زیب اپنی ماں سے لپٹ کر زور زور سے رو رہی ہے۔ خاموش بیٹھی زبیدہ کی نگاہیں گل زیب کے روتے ہوئے چہرے پر ٹھہر جاتی ہیں۔ اسے یاد آتا ہے۔
…… زبیدہ گھر میں کسی کام میں مصروف ہے کہ خوشی سے اُچھلتی ہوئی خوبصورت گل زیب اندر آتی ہے اور ہانپتی ہوئی کہتی ہے:
’’خالہ امّی! خالہ امیّ! اقبال آگیا۔ جلدی باہر آئیے۔‘‘
زبیدہ اپنی جگہ سے اٹھتی ہے۔
’’اچھاّ اچھاّ میں آتی ہوں لیکن تو اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہے‘‘
اتنی دیر میں اقبال اندر آکر ماں کو سلام کرتا ہے۔ زبیدہ اُسے گلے لگا کر پیار کرتی ہے اور خوشی کے آنسو دوپٹے سے صاف کرتی ہے۔
’’لو اماّں تمہارا بیٹا اب ڈاکٹر بن گیا۔‘‘
’’بیٹے تو نے اپنی تعلیم پوری کرکے مجھ پر احسان کیا ہے۔‘‘
’’کیوں امّاں؟ احسان تو تمام عمر میں تمہارا نہیں بھلا سکتا۔ تم نے کتنی محنت اور مشقّت کے بعد مجھے اس منزل تک پہنچایا ہے۔‘‘
’’نہیں بیٹا یہ سب تیرے اباّ کی دعا اور خواہش کا نتیجہ ہے آج ان کی روح بھی خوش ہوگی۔‘‘
اُسی وقت غلام رسول اور اس کی بیوی گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ اقبال انھیں سلام کرتا ہے۔ غلام رسول دعائیں دیتے ہوئے کہتا ہے:
’’خوش رہو بیٹا۔ تم سچ کہہ رہے ہو۔ تمہاری ماں کا تم پر بہت بڑا احسان ہے۔ میں ہی غلطی پر تھا۔ ہم لوگ عورت کو اپنے سماج کا کمزور حصہ سمجھتے ہیں لیکن تمہاری ماں نے اسے غلط ثابت کردیا۔ عورت چاہے تو آدمی کی تقدیر بدل سکتی ہے۔‘‘
اقبال غلام رسول کے بیٹے علی بخش کے بارے میں پوچھتا ہے:
’’چچا جان! علی بخش کہاں ہے؟ کیسا ہے وہ؟‘‘
غلام رسول اپنی بیوی کی طرف دیکھتا ہے اور دکھ بھری آواز میں کہتا ہے:
’’وہ اب ہمارے بیچ نہیں رہا‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اقبال حیرت سے سوال کرتا ہے۔
’’وہ ان گمراہ نوجوانوں کے بیچ پھنس گیا ہے جو اپنی قوم اور وطن کو تباہ کررہے ہیں۔ وہ کبھی کبھی یہاں آتا ہے۔‘‘
اقبال کو یہ سن کر افسوس ہوتا ہے۔ غلام رسول کہتا ہے:
’’بیٹا تم سے ملنے وہ ضرور آئے گا، تم اسے سمجھانا۔ اچھا بیٹا ہم چلتے ہیں۔‘‘
غلام رسول اوراس کی بیوی چلے جاتے ہیں ۔ اقبال گل زیب سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔
دوسرے دن علی بخش اس سے ملنے کے لئے آتا ہے۔ دونوں باتیں کرتے ہوئے جھرنے کی طرف چلے جاتے ہیں۔ علی بخش چاہتا ہے کہ اقبال بھی اس کی حمایت میں شامل ہوجائے۔
’’دیکھو اقبال تم تعلیم یافتہ ہو ۔خود سمجھ دار ہو، آزادی گھر بیٹھے نہیں ملتی۔ اس کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اپنے حق کے لئے لڑنا پڑتا ہے۔‘‘
اقبال اسے سمجھاتا ہے:
’’کیسی آزادی چاہیے تمہیں؟ کس بات کی آزادی چاہیے تمہیں؟ کون سی پابندی میں جی رہے تو تم؟ کیا تم آزاد ملک اور آزاد ریاست میں نہیں ہو۔ کیا تمہیں اپنے مذہب پر جینے کی آزادی نہیں ہے۔ کیا تم اپنے رسم و رواج پر چل کر زندگی نہیں گزارتے۔ ہندوستان میں جتنی آزاد اور خود مختارزندگی ہماری ریاست میں رہنے والے گزارتے ہیں کہیں اور ایسا نہیں ہوتا۔‘‘
علی بخش بحث کرتا ہے۔
’’وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن اپنا بھی تو علاحدہ ملک ہونا چاہئے ۔اپنا بھی وقاراور شخصیت ہونی چاہئے۔
’’کسی بھی خاندان کو وقار اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ بڑا ہوتا ہے۔ آدمی کی شخصیت اُس وقت نمایاں ہوتی ہے جب اس کا تعلق بڑے خاندان سے ہوتا ہے۔ سمندر میں رہنے والی مچھلی چھوٹے سے تالاب میں رہنا پسند نہیں کرتی۔ سمندر کی وسعتیں تالاب کی محدود زندگی سے بہتر ہیں۔ بڑے ملک کا حصہ رہو گے تو دنیا میں عزت و وقارکی نظرسے دیکھے جاؤگے اور اگر اپنا چھوٹا سا گھر علاحدہ بناؤ گے تو کیڑے مکوڑوں کی سی حیثیت ہو جائے گی۔ مالدار ملک تمہیں غریب اورمسکین سمجھ کر خیرات اور زکوۃ دیا کریں گے۔‘‘
اقبال نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن علی بخش پر جنون سوار تھا وہ چلا گیا۔
اقبال گاؤں میں رہ کر قوم کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ زبیدہ کی بھی خواہش تھی کہ وہ جلد از جلد کام شروع کرے تا کہ وہ اقبال کی دلہن کو لے کر آئے۔
علی بخش کے ساتھی یہ چاہتے تھے کہ اقبال بھی ان کے گروہ میں شامل ہو جائے۔ تعلیم یافتہ لوگوں کی انھیں بہت ضرورت تھی اور اقبال تو ڈاکٹر تھا۔ ایک دن علی بخش باتوں ہی باتوں میں اقبال کو اپنے ٹھکانے پر باقی ساتھیوں کے پاس لے گیا۔ اقبال کا ان لوگوں کو بھی وہی جواب تھا۔
’’تم لوگوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے کشمیری عوام ہر جگہ شک کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے ہیں۔ شرافت اور امن سے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔ تم اپنا ہی نقصان کررہے ہو، تم اپنی ہی آگ سے اپنا گھر جلا رہے ہو۔‘‘
کافی بحث کے بعد بھی اقبال نے ان کی بات کو تسلیم نہیں کیا اور وہاں سے چلا گیا۔ اقبال کے چلے جانے پر اس گروہ کے سردار نے علی بخش سے کہا:
’’ایسے لوگ ہماری زمین پر زندہ نہیں رہنے چاہئیں۔ ایسے ہی لوگ ہمارے مقصد کو کمزور کرتے ہیں۔ علی بخش اسے خاموش کرنے کی ذمہ داری تیری ہے۔ ہمارا مقصد جذبات اور رشتے نہیں دیکھتا۔‘‘
علی بخش کو جب اس کام کے لئے بھیجا گیا تو اس نے اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پائی کہ اپنے بچپن کے دوست اور بھائی کو ختم کرسکے۔ لیکن علی بخش پر نظر رکھنے والے اس کے ایک ساتھی نے اقبال کو تنہا جاتے ہوئے دیکھ کر گولی چلا دی۔
…… جنازہ اب بھی صحن میں رکھا ہوا تھا۔ زبیدہ اسی طرح روتی ہوئی عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی۔ وقت کافی گزر چکا تھا ۔لوگوں نے جنازہ کو اٹھانے کی اجازت چاہی۔زبیدہ جنازہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی تھی کہ بھیڑمیں سے علی بخش اور اس کا ساتھی جنازے کی چارپائی کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھے۔
انھیں دیکھتے ہی زبیدہ چیخ کر جنازے کی طرف دوڑ پڑی۔
’’رک جاؤ۔ چارپائی کو ہاتھ مت لگانا‘‘
سب لوگ حیران وپریشان ہوئے۔ سب کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں۔
زبیدہ خوفناک آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ تبھی اس نے پاس کھڑے ہوئے ایک سپاہی کی کمر سے پستول نکالی اور اندھا دھند علی بخش اور اس کے ساتھی پر گولیاں چلا دیں۔ اور یہ کہتی ہوئی اقبال کے جنازے کی چار پائی کے پاس گر گئی۔
’’یہی میرے بچےّ کے قاتل ہیں۔ یہی میرے بچےّ کے قاتل ہیں۔‘‘