تیسری دُنیا کے لوگ

رات قبر کے اندھیرے کی طرح تاریک اور خاموش تھی ۔ چہار طرف مہیب سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ تھکے ہارے جسم زلفِ شب کی گھنی چھاؤں میں پناہ لے کر عالمِ خواب میں مست و سرشار تھے کہ اچانک چاروں سمتیں شفق کی طرح سرخ ہوگئیں ۔ رفتہ رفتہ وہ تمام روشنیاں نزدیک آتی گئیں ۔ ایک ہجوم تھا جو طوفانی لہروں کی طرح بڑھ رہا تھا ۔موجوں کے شور کی سی آوازیں اس روشنیوں کے ہجوم سے اٹھ رہی تھیں ۔ وہ روشنیاں شعلے اُگلتی ہوئی مشعلیں تھیں ۔ جب وہ خوفناک آوازیں نکالتا ہوا ہجوم بستی کے نزدیک آیا تو انہوں نے آگ برساتی ہوئی مشعلوں کومکانوں کے اُوپر پہنچا دیا اور چلّانے لگے ۔
’’ مارو․․․․․ختم کردو․․․․․بھاگو․․․․․․․․چھوڑو․․․․․․یہ زمین ہماری ہے ․․․․․ یہاں صرف ہم رہیں گے ․․․․․․ہماری زمین خالی کرو․․․․․․․‘‘
یہ آوازیں شعلوں کو بھڑکا رہی تھیں اور شعلے لمحہ بہ لمحہ آسمان سے ہم کنار ہوتے جارہے تھے ۔ جلتے ہوئے مکانوں کے خوابیدہ مکیں شب خون نے بچنے کے لیے اپنے مکانوں سے باہر نکلے کہ ان پر حملہ آوروں نے تیر برسائے جوان نہتے اور بے گھر افراد کے جسموں کو چیرتے چلے گئے ۔ بچوں ، عورتوں اورمردوں کی مظلوم چیخوں نے فضا کو ماتم کدہ بنا دیا ۔ ذرا سی دیر میں پوری بستی جل کر راکھ اور چنگاریوں میں تبدیل ہوگئی اور ایسا شمشان بن گئی جہا ں زندہ لوگوں کی ارتھیاں جلائی گئی ہوں ۔ جب اس ہجوم کے افراد کو یقین ہوگیا کہ اب ان جلے ہوئے مکانوں میں سوائے سسکیوں کے کوئی زندہ آواز نہیں ، جو سر بغاوت بلند کرسکے تو وہ سب وہاں سے صبح کے تاروں کی طرح غائب ہوگئے ۔
اور جب آفتاب نے اپنے رُخ پُر نور سے نقاب ہٹائی تولہو کی سُر خی پوری جلی ہوئی مُردہ بستی پر پھیل گئی ۔ اس وقت ان لوگوں نے جو اس شب خون سے بچ گئے تھے ا ٓفتاب کی روشنی میں اپنے جلے ہوئے گھروں اورمُردہ عزیزوں کو دیکھا ۔ وہ نام نہاد زندہ لوگ تعداد میں اس قدر کم تھے کہ انگلیوں پر شمار کیے جاسکتے تھے ۔ وہ سب بے یارو مددگار ، مجبور و لا چار اپنے ٹوٹے ہوئے جسموں کو ہمت کی بیساکھیوں کے سہارے اُٹھا کر یکجا ہوئے ۔ زید نے یوں استفسار کیا ۔
’’ کیا تم لوگوں میں سے کوئی جانتا ہے کہ میرا گھر کہاں ہے ؟ میرے بچّے کہاں چلے گئے ہیں ؟‘‘
’’ ہاں!رات کے اندھیرے میں مشعلوں کی تیز روشنی میری آنکھوں کی روشنی لے گئی ۔‘‘
’’ کتنا اچھا ہوتا کہ تمہاری طرح آگ کے شعلے میری آنکھوں میں بھی اُترجاتے اور میری بینائی بھی ختم ہوجاتی ․․․․ ‘‘ حارث نے پُر درد لہجے میں اظہار افسوس کیا ۔
’’ تم ایسا کیوں سوچتے ہو․․․آنکھیں خدا کی نعمت ہیں ۔‘‘ زید اپنی محرومی پر ملول ہوا ۔
’’ اے زید تم بہت خوش قسمت ہو کہ تم دیکھ نہیں سکتے اور میں کتنا بدقسمت ہوں کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ۔‘‘
’’ تم کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ زید نے پھر سوال کیا ۔
’’ کیا تم سن سکو گے ؟‘‘
’’ ہاں! اب صرف سننے کی طاقت تو باقی بچی ہے ، تم بیان کرو۔‘‘
’’ میں دیکھ رہا ہوں ، میرا گھر جل چکا ہے ۔ اُس کی راکھ سے اب بھی دھوا ں اُٹھ رہا ہے ۔ میرا باپ میری ماں اور میری بیوی کے جسم آگ کے شعلوں کی نذر ہوچکے ہیں ۔ میرے بچّوں کے جسم خون میں لتھڑے ہوئے ہیں ‘‘
’’خدا تمہیں صبر عطا فرمائے ۔ ‘‘ زید نے دعا دی ۔
’’ صبر کے سوا چارہ بھی کیا ہے ۔‘‘
’’ کیا تم میرے گھر اور بچوں کے بارے میں بتا سکتے ہو۔ ‘‘ زید آنکھوں کی تکلیف بُھولے ہوئے تھا ۔
’’کس کا گھر ․․․․․․․ کس کے بچّے ․․․․․․․ یہاں توکوئی گھر نہیں ․․․․․کسی کے بچے نہیں ہیں۔‘‘
’’کیا سب کچھ ختم ہوگیا ؟‘‘
’’ نہیں ابھی تو سب کچھ موجود ہے ۔ جلے ہوئے مکانوں کی راکھ ختم نہیں ہوئی ہے ۔ سب کی لاشیں ابھی یہیں موجود ہیں ۔ اٹھائے گا بھی کون انہیں ۔ کون انہیں دفن کرے گا ۔ دفن کرنے والے خود انہیں لاشوں میں دبے ہوئے ہیں ۔ ہاں جانور کھائیں گے ۔ اب تو آنے بھی لگے ہیں ۔‘‘
’’ اورتم دیکھ رہے ہو؟‘‘ زید نے غصّہ میں کہا ۔
’’ کر بھی کیا سکتا ہوں ۔‘‘
’’انہیں لاشوں سے دور کرو۔‘‘
تم سمجھتے ہو ہم سب زندہ ہیں ۔ نہیں ہم سب بھی تمہاری طرح مر چکے ہیں ۔ ہمارے جسم آدھے جسم ہیں ۔ گزشتہ رات سب کو اَدُھورا کر گئی ہے ۔‘‘
’’ معاف کرنامیں نے تم پر غصّہ کیا ۔ ‘‘ زید کو اپنے غصّہ پر شرمندگی کا احسا س ہوا ۔ ’’ افسوس کیوں کرتے ہو ۔ ہم سب کے پاس اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ایک دوسرے پر غصہ کر کے دل کا بوجھ ہلکا کریں ۔‘‘
زید خاموش ہوگیا ، پھر اس نے کوئی سوال نہیں کیا ۔
وہ سب اَدُھورے لوگ سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں کہ ایک نوجوان نے کہا :
’’ چلو!ہم سب ان لوگوں سے انتقام لیں ۔‘‘
’’ تم ایسا نہیں کر سکوگے کہ تم تعدادمیں ۷۲بھی نہیں ۔ ‘‘ ضعیف العمر مونس نے کہا ۔
’’ پھر ہم کیاکریں۔‘‘ ان سب نے سوال کیا کہ ان کے ذہن مفلوج ہوچکے تھے فیصلہ کرنے کی قوت ختم ہوگئی تھی ۔ سب خود کو محتاج ومعذورمحسوس کررہے تھے ۔
’’ ہم سب اپنے پڑوس کی بستیوں میں چلیں اور حال بیان کریں ۔ شاید ہماری مصیبتوں کا کچھ حل نکلے اور ہمیں پتہ ملے ۔‘‘
سب نے متفقہ طور پر اس رائے کو تسلیم کیا اور وہ حیرت و یاس سے جلے ہوئے مکانوں اور جسموں کو دیکھتے ہوئے وہاں سے چل دیے ۔ کچھ دور پہنچے تھے کہ ایک تباہ حال مختصر سے قافلے سے ملاقات ہوئی ۔ بوڑھے مونس نے معلوم کیا کہ تم لوگ اس حال کو کس طرح پہنچے ۔ انہوں نے وہی حال بیان کیا جوگزشتہ رات اُن پر بھی گزر چکا تھا ۔ ان کے گھروں اور ان گھروں میں رہنے والے افراد کو بھی زندہ جلایا گیا تھا ۔ سب نے اظہار افسوس کیا ۔ اور وہ کر بھی کیا سکتے تھے کہ سب کا حال ایک ہی تھا ۔ چند ساعت نہ گزریں تھیں کہ ایک اور قافلہ ان سے آملا ۔
پھر ایک اور۔
ایک اور۔
ایک اور۔
وہ سب ہی اپنی بستیوں کی راکھ کوسلگتا ہوا اور عزیزوں کے جسموں کو بے کفن چھوڑ کر آئے تھے ۔
اب پھر وہی مسئلہ پیدا ہواگیا تھا کہ اب کیا کریں ۔ کہاں جائیں ۔ بچے ہوئے نوجوانوں کا جوش انتقام لینے کیے لیے اُکسا رہا تھا، لیکن معمر اور بزرگ لوگ بچوں اور عورتوں کی موجودگی میں انہیں اس فعل سے روک رہے تھے کہ اس میں اپنی ہی تباہی ڈر تھا ۔
بہت دیر تک وہ سب سوچتے رہے اور پھر وہ اس بات پر تیار ہوگئے کہ ہم اپنے ملک واپس چلیں کہ جہاں سے چند برس پہلے یہاں آئے تھے ۔ شاید ہمیں اپنے پرانے مکان مل جائیں ۔ اسی امید کو لے کر وہ اپنے ملک کی سرحد کی طرف چل دیے لیکن جب وہ اپنے ملک کی سرحد پر پہنچے تو سرحدداروں نے انہیں روک دیا کہ اب تم لوگ اس ملک میں نہیں آسکتے ۔ یہ ملک اب تمہارا نہیں رہا ۔
’’ پھر ہم کہاں جائیں؟ جس ملک میں ہم پناہ تلاش کرنے کے لیے آئے تھے ، وہاں کے لوگوں نے ہمیں پناہ نہیں دی ۔ ہمارے گھروں کو جلادیا۔ہمارے بھائیوں کوجانوروں کی طرح قتل کر ڈالا ۔‘‘
’’ ہم نہیں جانتے کہ تم کہاں جاؤ، لیکن ہمارے ملک کے راستے تمہارے لیے بند ہیں ۔ تم جہاں چاہو جاسکتے ہو۔دُنیا بہت بڑی ہے ۔‘‘ سرحدداروں نے تلخ لہجہ میں کہا ۔
’’ لیکن دنیا ہمیں اس لیے قبول نہیں کرتی کہ ہم تمہارے ملک کے رہنے والے ہیں ۔‘‘
’’ تمہارا اب اس ملک سے کوئی تعلق نہیں یہاں سے جاؤ ۔ جہاں جاسکتے ہو سمندر کی لہریں بڑے بڑے قافلوں کی پناہ دینے کے لیے تیار ہیں‘‘
سرحد داروں نے انہیں دُھتکار دیا ، اور وہ بے گھر افراد مایوس ہوکر وہاں سے لوٹ گئے ۔ بہت دن تک وہ اِدھر اُدھر بھٹکتے رہے۔ جنگلوں اور پہاڑوں میں پناہ ڈھونڈنے لگے ۔ لیکن اُن لوگوں نے کہ جنہوں نے اُن کے گھروں کو جلایا تھا ، اس دشت نوردی میں بھی سکون نہ لینے دیا ۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد اور کم ہوتی چلی گئی اور جب وہ ہر طرف سے مجبور ولاچار ہوگئے تو سرحد دار کی اس بات پر غور کرنے لگے کہ کیا واقعی سمندر کی لہریں ہماری آخری پناہ گاہ ہیں ۔ ان سب نے پھر فیصلہ کیا کہ بہتر ہے کہ ہم سب لوگ خود کو سمندر کے حوالے کر دیں ۔ شاید زمین ہمارے لیے تنگ ہوچکی ہے ۔ اور یہ سوچ کر سب نے سمندر کی راہ لی ۔ سمندر کی طوفانی لہروں کو دیکھ کر خوف محسوس ہوا ، لیکن اپنی بے کسی اور بے بسی کو یادکر کے اس خوف کومغلوب کیا اوجب ان سب نے خود کو سمندر کی لہروں کے حوالے کرنے کے لیے تیار کرلیا تو ایک آواز آئی ۔
’’ ٹھہرو! تم سب بزدل ہو کیا تم نہیں جانتے خود کشی کرنا حرام ہے ۔‘‘
سب نے مڑ کر دیکھا ایک درازالعمر ، سفید ریش بزرگ ان سے مخاطب تھا ۔
’’ ہاں۔ ہم جانتے ہیں لیکن خدا کی یہ زمین ہم پر تنگ ہوچکی ہے اور آسمان سے ہمارا رشتہ ٹوٹ چکا ہے ۔ ہم اپنے معصوم بچوں کو ذبح ہوتے ہوئے اور عزیزوں کے جسموں کو آگ میں جلتے ہوئے نہ دیکھ سکے اور خدا دیکھتا رہا ۔ ہم نے آسمان سے رحم کی بھیک مانگی لیکن ہمارے دامن میں دہکتے ہوئے انگارے آئے ۔ اب ہم کیوں آسمانی احکامات پر عمل کریں ۔ اب سوائے اس سمندر کے ہمارے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں ۔ کیا خدا نہیں جانتا کہ ہم پریشان حال ہیں ؟‘‘ سب نے بہ یک آواز کہا۔
’’ خدا سب کچھ جانتا ہے ۔ اسی لیے اس نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ میں تمہاری رہبری کروں، تمہیں صحیح راستہ بتلاؤں ۔‘‘
’’ نہیں، اب ہمیں کسی کی رہنمائی کی ضرورت نہیں ۔ اُس وقت تم کہا ں تھے جب ہماری عورتوں اور ہمارے بچّوں کے بدن دہکتی ہوئی آگ میں جھلس رہے تھے اور ان کی چیخیں آسمان سے ٹکرا رہی تھیں ۔ کیا تم نے کبھی اپنے دل کے ٹکڑوں کو آگ میں جلتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت کے کرب کو محسوس کیا ہے ۔ شاید جہنم کا منظر بھی اتنا کربناک نہیں ہوگا کیو ں کہ وہاں کوئی شخص اپنے جلتے ہوئے عزیز کو پہچانے گا نہیں ۔ بہتر ہوگا کہ تم ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ۔ ایسا نہ ہوکہ ہم کوئی گستاخی کر بیٹھیں۔‘‘ وہ سب غصّہ کی حالت میں کانپ رہے تھے ۔
’’ تم ابھی غصہ میں ہو اور جو کچھ کر رہے ہو اس کے انجام سے ناواقف ہو ۔ ‘‘ اس بزرگ کے لہجہ میں شفقت تھی ۔
’’ تم نافہم ہو ۔ تم چاہتے ہو کہ تمہارے بعد اور بستیاں جلیں اور تمہاری طرح ان بستیوں کے لوگ بھی خود کو سمندر کے حوالے کردیں اور یہ سلسلہ چلتا رہے ۔‘‘
’’ آخر تم چاہتے کیا ہو ؟ اگر خدا ہماری مدد نہیں کرتا توہمارے فعل سے ہمیں روکتا کیوں ہے ؟‘‘ ان کے غصّے میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوگئی تھی ۔
’’ یہ زمین تو لوگوں کے لیے بنائی گئی لیکن تم نے اسے بانٹ لیا ۔ تم نے اس زمین پر خونریزی کی ، شر پھیلایا ، کیا اب بھی تم خدا سے امید کرتے ہوکہ وہ تمہاری مدد کرے گا ۔ اس نے تمہیں زمین پر خود مختار بنایا ، پھر وہ کیوں تمہاری مدد کرے ‘‘
’’ اپنے اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ہم خود کشی کررہے ہیں ۔‘‘
’’ لیکن خود کشی کرنا زندگی سے فرار ہے اور زندگی سے فرار کم ہمتی اوربُزدلی ہے ۔ کیا تم بزدل ہو؟‘‘
پیر مرد نے استفسار کیا۔
’’ نہیں ۔ لیکن ہم مجبور ہیں ۔‘‘
’’ مجبوری کم ہمتی کا دوسرا نام ہے ۔ جاؤ اپنا حق مانگو۔ یہ زمین تم سب کے لیے ہے ۔‘‘
’’ لیکن ہم تعداد میں کم ہیں اور بے یا ومددگا ر ہیں ۔‘‘
’’ تم تین سو تیرہ سے زیادہ ہو ۔ کیا تم تین سو تیرہ کی فتح کے بارے میں نہیں جانتے ۔ وہ سب بھی بے یارومددگار تھے ۔ ‘‘
پیر مرد کی باتیں سُن کر سب نے گردنہیں جُھکالیں کہ وہ سب نادم تھے اور جب انہوں نے ندامت کے بوجھ سے دبی ہوئی گردنیں اٹھائیں تو اس بزرگ کو وہاں موجود نہیں پایا ۔ لیکن ان کے مضمحل چہروں پر تازگی اور جوش پلٹ آیا تھا ۔ سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے کہا ۔
’’ آؤ ہم سب اپنے جلے ہوئے مکانوں سے نئے مکان پیدا کریں ہم سب ان کے خلاف جنگ کریں ، جنہوں نے زمین کو بانٹ لیا ہے ۔ زمین ہم سب کی ہے ۔‘‘ اور اس نئے عزم کے ساتھ وہ سب اپنی بستیوں کی طرف لوٹ گئے ۔