ابن آدم
ہرروز کی طرح کمرے کی دیوار پر لگے ہوئے بلب کے نیچے د وموٹی موٹی چھپکلیاں بار بار منہ کھول کر بے بس کیڑوں کی نگل رہی تھیں اور وہ دونوں بھی ہر روز کی طرح اپنے تھکے ہارے جسموں کو لے کر بے جان کرسیوں پر آن پڑے تھے ۔ پھر ایک نے دوسرے سے سوال کیا :
’’ تم نے آج کیا دیکھا ؟ دوشرا کہنے لگا:
’’ میں نے آج دوعجیب منظر دیکھے ۔ تم کہو، تم نے کیا دیکھا ؟ ‘‘
’’ آج میری نظروں سے بھی کئی عجیب حادثے گزرے لیکن پہلے تو بیان کرو کہ تم نے کیا دیکھا ؟‘‘ وہ کہنے لگا :
’’ میں نے دیکھا کہ ایک بارہ تیر ہ سال کی لڑ کی سڑک پر جارہی ہے اچانک پانچ نوجوان آدمی اس کے پاس آئے اور اسے پکڑ کر لے گئے ۔پھر جو کچھ میں نے دیکھا اسے بیان کرنے کی زبان کو طاقت نہیں ۔ میری آنکھوں میں ابھی تک اس بے بس لڑکی کی چیخیں گونج رہی ہیں ۔ میں سب کچھ دیکھتا اور سنتا رہا لیکن نہ جانے کیوں کچھ نہیں کرسکا ۔‘‘
دوسرے نے افسوس کا اظہار کیا ۔
’’ افسوس آدمی درندہ بنتا جارہا ہے ۔ اس درندگی کا ایک دہشت ناک منظر میری نگاہوں کے سامنے پیش آیا ․․․․․․․ ایک مقام پر مختلف قوم کے دو افراد میں کسی بات پر جھگڑا ہوا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ دوقوموں کی لڑائی میں بدل گیا ۔ چاقو ، تلواریں ، بھالے، بندوقیں نکل آئیں ، جسم کٹنے لگے ، خون بہنے لگا ، وہاں جوان بوڑھے ، مرد عورت کا فرق نہیں تھا ۔ ہر ایک کو مارا جارہاتھا ، کاٹا جارہا تھا ۔ برسوں جو ساتھ رہے ، آس پاس دوست بن کر رہے ، ایک دوسرے کو بڑی بے دردی سے کاٹنے لگے ۔ عورتوں کی عزتیں اور بچوں کی لاشیں اُچھلنے لگیں ۔ اور ایک منظر دیکھ کر تومیں کانپ گیا ۔
’’ وہ کیا تھا ‘‘ پہلے نے بے چینی سے پوچھا ۔
’’ ایک حاملہ عورت جان بچانے کے لیے بھاگ رہی تھی کہ اچانک اُس پر کسی نے حملہ کردیا اور اس کا پیٹ چاک کرکے انسان بنتے ہوئے گوشت کے لوتھڑے کو ہوا میں اچھال دیا گیا ۔‘‘
’’ اُف یہ بے دردی کے مظاہرے کب تک آنکھیں دیکھتی رہیں گی ، کان سنتے رہیں گے ۔‘‘
’’ جب تک آدمی اس زمین پر موجود ہے ‘‘ دوسرے نے جواب دیا ۔
’’ آخر جذبۂ انسانیت کہاں ناپید ہوگیا ۔ ‘‘
’’ جذبۂ انسانیت کبھی تھا ہی نہیں ، انسان کوئی مخلوق نہیں ۔ یہ صرف ہمارے دہنوں کا تشکیل دیا ہوا ایک تخیلی نام ہے ۔ یہاں تو صرف ابن آدم کی حکومت ہے ۔ ہابیل قتل کیا جاتا رہے گا ، قابیل ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ کیا تم نے کوئی انسان دیکھا ہے ؟ ‘‘
’’ ہاں‘‘
’’ کہاں ہے وہ ؟‘‘ دوسرے نے مضطرب ہو کر چوچھا ۔
’’ وہ ․․․․․․وہ․․․․․․․․ نہیں! میں نے نہیں دیکھا ، میں جھوٹ کہہ رہا ہوں ۔‘‘
’’ جوشے نہیں ہے اسے دیکھا بھی کیسے جاسکتا ہے ۔ ‘‘
سچ! انسان ایک آئیڈیل کا نام ہے ، تم نے او رکیا دیکھا ؟‘‘
’’ کیا کیا سنوگے ، تم سنتے سنتے تھک جاؤگے لیکن حادثات کا بیان ختم نہیں ہوگاکیا تم سونگے کہ نوبیاہتا عور ت نے سسرال کے ظلموں سے نجات حاصل کرنے لیے اپنے بدن میں آگ لگا لگی ، کیا تم سنوگے کہ بے گناہ عورتوں بچوں اور مردوں سے بھری ٹرین کو بم سے اڑادیا گیا ۔ کیا تم اس بے حسی کی کہانی سنوگے کہ ایک شخص سڑک پر تڑپ تڑپ کر جان دیتا رہا اور لوگ انجان بن کر گزرتے رہے ۔‘‘
’’ بس کرو․․․․ ․․․․بس ․․․․․․․․یہ سب کچھ میں نے بھی دیکھا ہے ۔ پتہ نہیں شرافت، ہمدردی کہاں گئی ․․․․․․․‘‘
’’ شرافت ․․․․․․․․․ہاہاہا․․․․․․․ہمدردی․․․․․․․․․ہاہاہا ․․․․․․․․یہ سب الفاظ کتابوں کے ہیں ․․․․․․․صرف کتابوں کے ۔ وہ وقت عنقریب آنے والا ہے ، جب دنیا کا سب سے شریف آدمی وہ کہلائے گا جو انسانیت ، شرافت ، ہمدردی ، دوستی ، وفا جیسے الفاظ کے معنی جانتا ہوگا ۔‘‘
’’ ہاں بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے ․․․․․․․ یہ آدمیوں کی دنیا ہے اور آدمی کی فطرت شر پسند ہوگئی ہے ۔ چھوڑ و اس بات کو ․․․․․․․․․ تم کہوتمہاری محبوبہ کیسی ہے ؟‘‘ ایک نے گفتگو کے موضوع کوبدلنے کی کوشش کی دوسرا کہنے لگا :
’’ بہت اچھی ، تمام دنیا کی لڑکیوں سے اچھی ۔‘‘
’’ کیا تمہیں اس کی وفا پر یقین ہے ۔ ‘‘
’’ اتنا ہی جتنا اس بات پر کہ میں زندہ ہوں ۔ وہ اپنی خوبصورتی کی طرح مجھے چاہتی ہے ۔ ‘‘
’’وہ جھوٹ بولتی ہے ․․․․․․․ وہ تمہیں نہیں چاہتی ۔‘‘
’’ نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو․․․․․․․ تم اس پر الزام لگار ہے ہو۔‘‘
’’ نہیں! میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔ اس نے شاید کبھی تمہیں چاہا ہوگا ۔‘‘
’’ وہ اب بھی مجھے پوجتی ہے ۔ ‘‘
’’ یہ تمہاری خوش فہمی ہے ۔ وہ جان چکی ہے کہ تم صرف ایک فنکار ہو۔ جس کی جیبیں خالی ہیں ۔‘‘
’’ وہ دولت کو نہیں چاہتی ۔ ‘‘
’’ وہ دولت ہی کو چاہتی ہے ․․․․․․․․ تم نہیں جانتے کہ دہ دولت مند کے ساتھ رشتہ جوڑچکی ہے ۔‘‘
’’ تم اس پر بے وفائی کا الزام لگا کر مجھے جوش دلا رہے ہو۔‘‘
’’ تم کیا کرسکتے ہو؟‘‘
’’ میں تمہاری زبان کھینچ لوں گا ۔‘‘
’’ اور میں پھر بھی کہتا رہوں گا کہ وہ بے وفا ہے ․․․․․․بے وفا۔‘‘
’’ میں تمہیں مار ڈالوں گا ۔ ‘‘
’’ میرے بھی دومضبوط ہاتھ ہیں ۔‘‘
’’ کمینے ․․․․․․ میں تجھے زندہ نہیں چھوڑدوں گا ۔‘‘
دونوں ایک دوسرے سے بھڑجاتے ہیں اور جان لینے کی حد تک لڑتے رہتے ہیں۔
انجام کار آخری سانسیں لیتے ہوئے گرجاتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے کہتاہے ۔
’’ آخر تونے مجھے مارہی دیا ۔ ‘‘
’’ہاں․․․․․․․․ہم ․․․․․․․․دونوں نے ․․․․․․․․ ایک دوسرے کومارڈالا ․․․․․․․․․ آخر ․․․․․․ہم بھی تو آدمی ہی ہیں ۔ ‘‘
اچانک کمرے کا بلب بجھ گیا اور وہ دونوں موٹی موٹی چھپکلیاں ان دونوں مُردہ جسموں کی خون میں لتھڑی ہوئی پشت پر آگریں ۔