Husain Ahmad Wasif

حسین احمد واصف

  • 1962

حسین احمد واصف کی غزل

    اپنے روشن مستقبل کی باتیں کرتے ہیں

    اپنے روشن مستقبل کی باتیں کرتے ہیں شاعر بھی دیوانوں جیسی باتیں کرتے ہیں دنیا داری صاف جھلکتی ہے کرداروں سے ہم مسجد کی حد تک دینی باتیں کرتے ہیں کاش عمل بھی اپنے ہو جائیں بالکل ویسے تقریروں میں جتنی اچھی باتیں کرتے ہیں کیا تہذیب تنزل کی منزل تک آ پہنچی شرفا بازاروں میں گھر کی ...

    مزید پڑھیے

    جو بڑا ہے اسے چھوٹے نہیں اچھے لگتے

    جو بڑا ہے اسے چھوٹے نہیں اچھے لگتے جس طرح پیڑ کو پودے نہیں اچھے لگتے منتشر ہوتا ہے شیرازۂ ملت جن سے ان کتابوں کے حوالے نہیں اچھے لگتے اختلافات تو گھر گھر میں ہیں موجود مگر گھر کی ہر بات کے چرچے نہیں اچھے لگتے سر میں بیٹی کے بہت پھیل چکی ہے چاندی پھر بھی ماں باپ کو رشتے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دعوائے امن کریں ہاتھ میں چاقو رکھیں

    دعوائے امن کریں ہاتھ میں چاقو رکھیں اور ہمیں درس کہ جذبات پہ قابو رکھیں اتنی پہچان ہی کافی ہے ریاکاروں کی غم کا اظہار کریں آنکھ میں آنسو رکھیں عدل کا خون کریں پھر بھی بہ زعم انصاف اپنے ہاتھوں میں وہی لوگ ترازو رکھیں مفلسی لاکھ سہی پھول سے بچے پھر بھی میرے ہوتے ہوئے کیوں آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    امن کے دعوے اپیلیں اشتہار اپنی جگہ

    امن کے دعوے اپیلیں اشتہار اپنی جگہ حسب سابق شہر بھر میں انتشار اپنی جگہ دن بہ دن حالات کا رخ بد سے بد تر کی طرف روز و شب اچھے دنوں کا انتظار اپنی جگہ کار بنگلہ کارخانے محفلیں ہوٹل شراب گھر کے اندر کی فضا ناخوش گوار اپنی جگہ میں صداقت کا علمبردار تو باطل پرست جیت میری طے شدہ ہے ...

    مزید پڑھیے