دعوائے امن کریں ہاتھ میں چاقو رکھیں

دعوائے امن کریں ہاتھ میں چاقو رکھیں
اور ہمیں درس کہ جذبات پہ قابو رکھیں


اتنی پہچان ہی کافی ہے ریاکاروں کی
غم کا اظہار کریں آنکھ میں آنسو رکھیں


عدل کا خون کریں پھر بھی بہ زعم انصاف
اپنے ہاتھوں میں وہی لوگ ترازو رکھیں


مفلسی لاکھ سہی پھول سے بچے پھر بھی
میرے ہوتے ہوئے کیوں آنکھ میں آنسو رکھیں


اپنا لہجہ ہی بڑا تلخ ہے واصفؔ صاحب
کیا کسی شعر میں الفاظ کا جادو رکھیں