اپنے روشن مستقبل کی باتیں کرتے ہیں
اپنے روشن مستقبل کی باتیں کرتے ہیں
شاعر بھی دیوانوں جیسی باتیں کرتے ہیں
دنیا داری صاف جھلکتی ہے کرداروں سے
ہم مسجد کی حد تک دینی باتیں کرتے ہیں
کاش عمل بھی اپنے ہو جائیں بالکل ویسے
تقریروں میں جتنی اچھی باتیں کرتے ہیں
کیا تہذیب تنزل کی منزل تک آ پہنچی
شرفا بازاروں میں گھر کی باتیں کرتے ہیں
خواب سے لگتے ہیں اب سارے رشتے ماضی کے
مل ہی جاتے ہیں تو رسمی باتیں کرتے ہیں
اچھا سا منصب حاصل کر لینے کی دھن میں
لوگ نہ جانے کیسی کیسی باتیں کرتے ہیں
سچائی کو سن کر حاکم مجھ سے کہتا ہے
ایسے لہجے میں تو باغی باتیں کرتے ہیں
بات کروں یا شعر سناؤں دنیا کہتی ہے
واصفؔ صاحب ہر دم کڑوی باتیں کرتے ہیں