انا کا پرندہ
سمٹتے ہوئے سایوں کے فرش پر
دیر سے یوں ہی بیٹھا ہوا ہوں
کہ گزرے کوئی قافلہ جادۂ روز و شب سے
تو پوچھوں کہ درماندگی کی سزا کیا ہے مجھ کو بتاؤ
مگر ڈر رہا ہوں کہ کوئی مسافر
مری بات پر مسکرایا تو میں کس طرح جی سکوں گا
مری زندگی ایک سرکش انا ہے
پرندے کی صورت عناصر کے زر کار پنجرے کی زینت
مری روح بھی جادوگر کی طرح
اس انا اس پرندے کے قالب میں خلوت نشیں ہے
کسی کو وہ دشمن ہو یا دوست
میں پنجرے کی تیلیوں تک پہنچنے دوں
یہ کس طرح ہو سکے گا
کسے یہ خبر ہے کہ میں خود کو بھی
اپنا دشمن سمجھنے لگا ہوں