حمیرا گل تشنہ کی غزل

    کوئی اعجاز ہے شاید

    کوئی اعجاز ہے شاید مرا اعزاز ہے شاید جو مطرب چھیڑ دیتا ہے وہ دل کا ساز ہے شاید مرے اپنے مخالف ہیں ہوا ناساز ہے شاید گلے یوں خواب میں ملنا ترا انداز ہے شاید یہاں جو جھوٹ کہتا ہے وہی ممتاز ہے شاید وہ جس میں دم اٹکتا ہے وہی دم ساز ہے شاید چمکتی دھوپ ہے تو ہے نیا آغاز ہے ...

    مزید پڑھیے

    جو سخن کو میرے سنا کرے مرا عکس بن کے ملا کرے

    جو سخن کو میرے سنا کرے مرا عکس بن کے ملا کرے وہی ہم سفر مری راہ میں مری روشنی جو خدا کرے مجھ چاند سے نہیں کچھ غرض مجھے مہر سے کیا گلہ کہ بس جو چراغ مجھ کو پسند ہے مرے طاقچے میں جلا کرے میں دروغ گوئی سے تنگ ہوں میں منافقوں سے بری کہ اب مجھے دوست وہ ہی عزیز ہے کہ جو بات منہ پہ کہا ...

    مزید پڑھیے

    گھرانوں سے محبت کی فضائیں چھین لیتے ہیں

    گھرانوں سے محبت کی فضائیں چھین لیتے ہیں ستم گر پھول سے بچوں کی مائیں چھین لیتے ہیں ہمارے بادشاہوں کو ہے نفرت شور سے اتنی کہ مظلوموں سے رونے کی صدائیں چھین لیتے ہیں کہیں ہیں کفر کے فتوے کہیں شور ملامت ہے خدا جب لوگ بن جائیں جزائیں چھین لیتے ہیں الٰہی تیری بستی میں یہ کیسے لوگ ...

    مزید پڑھیے

    تشنہؔ فضائے صبح چمن میں خمار ہے

    تشنہؔ فضائے صبح چمن میں خمار ہے لیکن جو دل کی بات کروں بے قرار ہے پھولوں کے سرخ ڈھیر کے پیچھے ہے تیز تیغ یوسف کے بھائیوں کا کہاں اعتبار ہے گردش کا آسمان ہے شورش کی خاک پر آدم تری زمیں پہ بہت سوگوار ہے لوگوں سے ربط ضبط ہے دنیا سے اتفاق شاید یہ اپنے آپ سے میرا فرار ہے شکوہ کریں ...

    مزید پڑھیے

    یہ سچ نہیں ہے کہ اس کو میری محبتوں کی خبر نہیں ہے

    یہ سچ نہیں ہے کہ اس کو میری محبتوں کی خبر نہیں ہے اسے پتہ ہے کہ عشق میرا فقط فریب نظر نہیں ہے صبیح چہرے پہ روشنی ہو اگر جو باطن سے عشق پھوٹے تمام دنیا میں عشق جیسا کوئی بھی کار دگر نہیں ہے جو راہ ڈھونڈے وہ راہ پائے جو راہ پائے وہ بھول جائے تلاش کر لے جو اصل اپنی وہی ہے جو بے خبر ...

    مزید پڑھیے

    آرزوئے دل کا یہ انجام ہونا چاہیے

    آرزوئے دل کا یہ انجام ہونا چاہیے کیا مجھے بھی عشق میں ناکام ہونا چاہیے کیوں بھلا ابلیس کو الزام دیتے ہو فقط تم کو خیر و شر کا بھی الہام ہونا چاہیے باپ کی دستار بیچیں بہن کی کھینچیں ردا مرد کی غیرت پہ اب نیلام ہونا چاہیے مطلبی دنیا میں ہے گم ابن آدم اس قدر کام ہونا چاہیے بس کام ...

    مزید پڑھیے

    بے دم ہوئے یوں ہو کے گرفتار محبت

    بے دم ہوئے یوں ہو کے گرفتار محبت کہتا ہے مسیحا کہ ہوں بیمار محبت روتا ہے شب ہجر میں دل خون کے آنسو ملتا نہیں کوئی اسے غم‌ خوار محبت ان حسن کی گلیوں میں خریدار بہت ہیں لگتا ہے شب و روز یہ بازار محبت الفاظ ہیں خنجر تو بجھا زہر میں لہجہ ایسے میں بھلا کیسے ہو اقرار محبت اب عشق ہے ...

    مزید پڑھیے