Himayat Ali Shayar

حمایت علی شاعر

حمایت علی شاعر کی غزل

    یہ شہر رفیقاں ہے دل زار سنبھل کے

    یہ شہر رفیقاں ہے دل زار سنبھل کے ملتے ہیں یہاں لوگ بہت روپ بدل کے عارض ہیں کہ مرجھائے ہوئے پھول کنول کے آنکھیں ہیں کہ جھلسے ہوئے خوابوں کے محل کے چہرہ ہے کہ ہے آئینۂ گردش دوراں شہکار ہیں کیا کیا مرے نقاش ازل کے فرہاد سر دار ہے شیریں سر بازار بدلے نہیں اب تک مگر انداز غزل ...

    مزید پڑھیے

    اپنا انداز جنوں سب سے جدا رکھتا ہوں میں

    اپنا انداز جنوں سب سے جدا رکھتا ہوں میں چاک دل چاک گریباں سے سوا رکھتا ہوں میں غزنوی ہوں اور گرفتار‌‌ خم زلف ایاز بت شکن ہوں اور دل میں بت کدہ رکھتا ہوں میں ہے خود اپنی آگ سے ہر پیکر گل تابناک لے ہوا کی زد پہ مٹی کا دیا رکھتا ہوں میں میں کہ اپنی قبر میں بھی زندہ ہوں گھر کی ...

    مزید پڑھیے

    میرا شعور مجھ کو یہ آزار دے گیا

    میرا شعور مجھ کو یہ آزار دے گیا سورج کی طرح دیدۂ بے دار دے گیا ہر پھول اک شرر ہے تو ہر شاخ ایک برق جنت کا خواب دوزخ گلزار دے گیا لب‌ بستگی میں حسرت گفتار جاگ اٹھی خوف سکوت جرأت اظہار دے گیا جلتا ہوں اپنی آگ میں خورشید کی طرح کیسی سزا یہ شعلۂ‌ پندار دے گیا محو سخن تھا میں کہ مرا ...

    مزید پڑھیے

    نالۂ غم شعلہ اثر چاہئے

    نالۂ غم شعلہ اثر چاہئے چاک دل اب تا بہ جگر چاہئے کتنے مہ‌ و نجم ہوئے نذر شب اے غم دل اب تو سحر چاہئے منزلیں ہیں زیر کف پا مگر اک ذرا عزم سفر چاہئے آئنہ خانے میں ہے درکار کیا چاہئے اک سنگ اگر چاہئے دور ہے دل منزل غم سے ہنوز اک غلط انداز نظر چاہئے تشنگئ لب کا تقاضا ہے اب بادہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    دستک ہوا نے دی ہے ذرا غور سے سنو

    دستک ہوا نے دی ہے ذرا غور سے سنو طوفاں کی آ رہی ہے صدا غور سے سنو شاخیں اٹھا کے ہاتھ دعا مانگنے لگیں سرگوشیاں چمن میں ہیں کیا غور سے سنو محسوس کر رہا ہوں میں کرب شکستگی تم بھی شگفت گل کی صدا غور سے سنو گل چیں کو دیکھ لیتی ہے جب کوئی شاخ گل دیتی ہے بد دعا کہ دعا غور سے سنو یہ اور ...

    مزید پڑھیے

    ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ

    ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ کس لیے کیجے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش جب کہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ کتنے سادہ دل ہیں اب بھی سن کے آواز جرس پیش و پس سے بے خبر گھر سے نکل جاتے ہیں لوگ اپنے سائے سائے سرنہوڑائے آہستہ ...

    مزید پڑھیے

    اس شہر خفتگاں میں کوئی تو اذان دے

    اس شہر خفتگاں میں کوئی تو اذان دے ایسا نہ ہو زمیں کا جواب آسمان دے پڑھنا ہے تو نوشتۂ بین السطور پڑھ تحریر بے حروف کے معنی پہ دھیان دے سورج تو کیا بجھے گا مگر اے ہوائے مہر تپتی زمیں پہ ابر کی چادر ہی تان دے اب دھوپ سے گریز کرو گے تو ایک دن ممکن ہے سایہ بھی نہ کوئی سائبان دے میں ...

    مزید پڑھیے

    جو کچھ بھی گزرتا ہے مرے دل پہ گزر جائے

    جو کچھ بھی گزرتا ہے مرے دل پہ گزر جائے اترا ہوا چہرہ مری دھرتی کا نکھر جائے اک شہر صدا سینے میں آباد ہے لیکن اک عالم خاموش ہے جس سمت نظر جائے ہم بھی ہیں کسی کہف کے اصحاب کی مانند ایسا نہ ہو جب آنکھ کھلے وقت گزر جائے جب سانپ ہی ڈسوانے کی عادت ہے تو یارو جو زہر زباں پر ہے وہ دل میں ...

    مزید پڑھیے

    بدن پہ پیرہن خاک کے سوا کیا ہے

    بدن پہ پیرہن خاک کے سوا کیا ہے مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے یہ شہر سجدہ گزاراں دیار کم نظراں یتیم خانۂ ادراک کے سوا کیا ہے تمام گنبد و مینار و منبر و محراب فقیہ شہر کی املاک کے سوا کیا ہے کھلے سروں کا مقدر بہ فیض جہل خرد فریب سایۂ افلاک کے سوا کیا ہے تمام عمر کا حاصل بہ ...

    مزید پڑھیے

    میں سو رہا تھا اور کوئی بیدار مجھ میں تھا

    میں سو رہا تھا اور کوئی بیدار مجھ میں تھا شاید ابھی تلک مرا پندار مجھ میں تھا وہ کج ادا سہی مری پہچان بھی تھا وہ اپنے نشے میں مست جو فن کار مجھ میں تھا میں خود کو بھولتا بھی تو کس طرح بھولتا اک شخص تھا کہ آئنہ بردار مجھ میں تھا شاید اسی سبب سے توازن سا مجھ میں ہے اک محتسب لئے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3