میرا شعور مجھ کو یہ آزار دے گیا
میرا شعور مجھ کو یہ آزار دے گیا
سورج کی طرح دیدۂ بے دار دے گیا
ہر پھول اک شرر ہے تو ہر شاخ ایک برق
جنت کا خواب دوزخ گلزار دے گیا
لب بستگی میں حسرت گفتار جاگ اٹھی
خوف سکوت جرأت اظہار دے گیا
جلتا ہوں اپنی آگ میں خورشید کی طرح
کیسی سزا یہ شعلۂ پندار دے گیا
محو سخن تھا میں کہ مرا عکس ہنس پڑا
آئینے سے نکل کے یہ اشعار دے گیا