اس دشت پہ احساں نہ کر اے ابر رواں اور
اس دشت پہ احساں نہ کر اے ابر رواں اور جب آگ ہو نم خوردہ تو اٹھتا ہے دھواں اور وہ قحط جنوں ہے کہ کوئی چاک گریباں آتا ہے نظر بھی تو گزرتا ہے گماں اور یہ سنگ زنی میرے لیے بارش گل ہے تھک جاؤ تو کچھ سنگ بدست دگراں اور سورج کو یہ غم ہے کہ سمندر بھی ہے پایاب یا رب مرے قلزم میں کوئی سیل ...