Himayat Ali Shayar

حمایت علی شاعر

حمایت علی شاعر کی غزل

    اس دشت پہ احساں نہ کر اے ابر رواں اور

    اس دشت پہ احساں نہ کر اے ابر رواں اور جب آگ ہو نم خوردہ تو اٹھتا ہے دھواں اور وہ قحط جنوں ہے کہ کوئی چاک گریباں آتا ہے نظر بھی تو گزرتا ہے گماں اور یہ سنگ زنی میرے لیے بارش گل ہے تھک جاؤ تو کچھ سنگ بدست دگراں اور سورج کو یہ غم ہے کہ سمندر بھی ہے پایاب یا رب مرے قلزم میں کوئی سیل ...

    مزید پڑھیے

    سائے چمک رہے تھے سیاست کی بات تھی

    سائے چمک رہے تھے سیاست کی بات تھی آنکھیں کھلیں تو صبح کے پردے میں رات تھی میں تو سمجھ رہا تھا کہ مجھ پر ہے مہرباں دیوار کی یہ چھاؤں تو سورج کے ساتھ تھی کس درجہ ہولناک ہے یارو شعور ذات کتنی حسین پہلے یہی کائنات تھی تیری جفا تو مورد الزام تھی نہ ہے میری وفا بھی کوشش‌ تکمیل ذات ...

    مزید پڑھیے

    اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں یارو

    اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں یارو پھر ہیں برق کی نظریں سوئے آشیاں یارو اب نہ کوئی منزل ہے اور نہ رہ گزر کوئی جانے قافلہ بھٹکے اب کہاں کہاں یارو پھول ہیں کہ لاشیں ہیں باغ ہے کہ مقتل ہے شاخ شاخ ہوتا ہے دار کا گماں یارو موت سے گزر کر یہ کیسی زندگی پائی فکر پا بہ جولاں ہے گنگ ہے زباں ...

    مزید پڑھیے

    تخاطب ہے تجھ سے خیال اور کا ہے

    تخاطب ہے تجھ سے خیال اور کا ہے یہ نکتہ وفا میں بڑے غور کا ہے وہ خلوت میں کچھ اور جلوت میں کچھ ہے کرم اس کا مجھ پر عجب طور کا ہے مرا چہرہ بھی میرا چہرہ نہیں ہے یہ احسان مجھ پر مرے دور کا ہے یہ نفرت محبت کا رد عمل ہے کہ مجھ سے تقاضا ترے جور کا ہے نئے دور کی ابتدا کا ہے ضامن کہ دل ...

    مزید پڑھیے

    آئے تھے تیرے شہر میں کتنی لگن سے ہم

    آئے تھے تیرے شہر میں کتنی لگن سے ہم منسوب ہو سکے نہ تری انجمن سے ہم بیزار آ نہ جائیں غم جان و تن سے ہم اپنے وطن میں رہ کے بھی ہیں بے وطن سے ہم یوں بے رخی سے پیش نہ آ اہل دل کے ساتھ اٹھ کر چلے نہ جائیں تری انجمن سے ہم یہ سرکشی جنوں نہیں پندار عشق ہے گزرے ہیں دار سے بھی اسی بانکپن سے ...

    مزید پڑھیے

    یم بہ یم پھیلا ہوا ہے پیاس کا صحرا یہاں

    یم بہ یم پھیلا ہوا ہے پیاس کا صحرا یہاں اک سراب تشنگی ہے موجۂ صہبا یہاں روشنی کے زاویوں پر منحصر ہے زندگی آپ کے بس میں نہیں ہے آپ کا سایہ یہاں آتے آتے آنکھ تک دل کا لہو پانی ہوا کس قدر ارزاں ہے اپنے خون کا سودا یہاں تیرے میرے درمیاں حائل رہی دیوار حرف رکھ لیا اک بات نے ہر بات کا ...

    مزید پڑھیے

    چاند نے آج جب اک نام لیا آخر شب

    چاند نے آج جب اک نام لیا آخر شب دل نے خوابوں سے بہت کام لیا آخر شب ہائے وہ خواب کہ تعبیر سے سرشار بھی تھا اس کی آنکھوں سے جو انعام لیا آخر شب ہائے کیا پیاس تھی جب اس کے لبوں سے میں نے مسکراتا ہوا اک جام لیا آخر شب میں جو گرتا بھی تو قدموں میں اسی کے گرتا اس نے خود بڑھ کے مجھے تھام ...

    مزید پڑھیے

    کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے

    کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے اک دن نکل نہ جاؤں ذرا اپنے آپ سے جس کی مجھے تلاش تھی وہ تو مجھی میں تھا کیوں آج تک میں دور رہا اپنے آپ سے دنیا نے تجھ کو میرا مخاطب سمجھ لیا محو سخن تھا میں تو سدا اپنے آپ سے تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی کس طرح انتقام لیا اپنے آپ سے لوٹ آ ...

    مزید پڑھیے

    اس کے غم کو غم ہستی تو مرے دل نہ بنا

    اس کے غم کو غم ہستی تو مرے دل نہ بنا زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا تو بھی محدود نہ ہو مجھ کو بھی محدود نہ کر اپنے نقش کف پا کو مری منزل نہ بنا اور بڑھ جائے گی ویرانئ دل جان جہاں میری خلوت گہ خاموش کو محفل نہ بنا دل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا زیاں عشق کو عشق سمجھ ...

    مزید پڑھیے

    رات سنسان دشت و در خاموش

    رات سنسان دشت و در خاموش چاند تارے شجر حجر خاموش کوئی آواز پا نہ بانگ جرس کارواں اور اس قدر خاموش ہر طرف اک مہیب سناٹا دل دھڑکتا تو ہے مگر خاموش ہوئے جاتے ہیں کس لیے آخر ہم سفر بات بات پر خاموش ہیں یہ آداب رہ گزر کہ خوف راہرو چپ ہیں راہبر خاموش مختصر ہو نہ ہو شب تاریک ہم کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3