Himayat Ali Shayar

حمایت علی شاعر

حمایت علی شاعر کی غزل

    آج کی شب جیسے بھی ہو ممکن جاگتے رہنا

    آج کی شب جیسے بھی ہو ممکن جاگتے رہنا کوئی نہیں ہے جان کا ضامن جاگتے رہنا قزاقوں کے دشت میں جب تک قافلہ ٹھہرے قافلے والو رات ہو یا دن جاگتے رہنا تاریکی میں لپٹی ہوئی پر ہول خموشی اس عالم میں کیا نہیں ممکن جاگتے رہنا آہٹ آہٹ پر جانے کیوں دل دھڑکے ہے کوئی نہیں اطراف میں لیکن ...

    مزید پڑھیے

    کیا کیا نہ زندگی کے فسانے رقم ہوئے

    کیا کیا نہ زندگی کے فسانے رقم ہوئے لیکن جو حاصل غم دل تھے وہ کم ہوئے اے تشنگیٔ درد کوئی غم کوئی کرم مدت گزر گئی ہے ان آنکھوں کو نم ہوئے ملنے کو ایک اذن تبسم تو مل گیا کچھ دل ہی جانتا ہے جو دل پر ستم ہوئے دامن کا چاک چاک جگر سے نہ مل سکا کتنی ہی بار دست و گریباں بہم ہوئے کس کو ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہو چکی اب شاعری لفظوں کا دفتر باندھ لو

    ہو چکی اب شاعری لفظوں کا دفتر باندھ لو تنگ ہو جائے زمیں تو اپنا بستر باندھ لو دوش پر ایمان کی گٹھری ہو سر ہو یا نہ ہو پیٹ خالی ہیں تو کیا پیٹوں پہ پتھر باندھ لو عافیت چاہو تو جھک جاؤ سر پا پوش وقت پھر یہ دستار فضیلت اپنے سر پر باندھ لو قاضی الحاجات سے اک عہد باندھا تھا تو کیا اب ...

    مزید پڑھیے

    منزل کے خواب دیکھتے ہیں پاؤں کاٹ کے

    منزل کے خواب دیکھتے ہیں پاؤں کاٹ کے کیا سادہ دل یہ لوگ ہیں گھر کے نہ گھاٹ کے اب اپنے آنسوؤں میں ہیں ڈوبے ہوئے تمام آئے تھے اپنے خون کا دریا جو پاٹ کے شہر وفا میں حق نمک یوں ادا ہوا محفل میں ہیں لگے ہوئے پیوند ٹاٹ کے کھنچتی تھی جن کے خوف سے سد سکندری سوئے نہیں ہیں آج وہ دیوار چاٹ ...

    مزید پڑھیے

    جب تک زمیں پہ رینگتے سائے رہیں گے ہم

    جب تک زمیں پہ رینگتے سائے رہیں گے ہم سورج کا بوجھ سر پہ اٹھائے رہیں گے ہم کھل کر برس ہی جائیں کہ ٹھنڈی ہو دل کی آگ کب تک خلا میں پاؤں جمائے رہیں گے ہم جھانکے گا آئینوں سے کوئی اور جب تلک ہاتھوں میں سنگ و خشت اٹھائے رہیں گے ہم اک نقش پا کی طرح سہی اس زمین پر اپنی بھی ایک راہ بنائے ...

    مزید پڑھیے

    پندار زہد ہو کہ غرور برہمنی

    پندار زہد ہو کہ غرور برہمنی اس دور بت شکن میں ہے ہر بت شکستنی صرصر چلے کہ تند بگولوں کا رقص ہو موج نمو رواں ہے تو ہر گل شگفتنی گل‌‌ چین و گل فروش کی خاطر ہے فصل گل اور قسمت جنوں ہے فقط چاک دامنی دیوار ابر کھینچیے کرنوں کی راہ میں ذروں میں قید کیجیئے سورج کی روشنی موج نفس سے ...

    مزید پڑھیے

    اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے

    اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے سورج کے اجالے میں چراغاں نہیں ممکن سورج کو بجھا دو کہ زمیں جشن منائے مہتاب کا پرتو بھی ستاروں پہ گراں ہے بیٹھے ہیں شب تار سے امید لگائے ہر موج ہوا شمع کے در پے ہے ازل سے دل سے کہو لو اپنی ذرا اور بڑھائے کس ...

    مزید پڑھیے

    میں جو کچھ سوچتا ہوں اب تمہیں بھی سوچنا ہوگا

    میں جو کچھ سوچتا ہوں اب تمہیں بھی سوچنا ہوگا جو ہوگا زندگی کا ڈھب تمہیں بھی سوچنا ہوگا ابھی تو آنکھ اوجھل ہے مگر خورشید کے ہاتھوں کھینچے گی جب ردائے شب تمہیں بھی سوچنا ہوگا مقدر میں تمہارے کیوں نہیں لکھا بجز میرے صلیب و دار کا منصب تمہیں بھی سوچنا ہوگا یہ کیسا قافلہ ہے جس میں ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ کی قسمت ہے اب بہتا سمندر دیکھنا

    آنکھ کی قسمت ہے اب بہتا سمندر دیکھنا اور پھر اک ڈوبتے سورج کا منظر دیکھنا شام ہو جائے تو دن کا غم منانے کے لیے ایک شعلہ سا منور اپنے اندر دیکھنا روشنی میں اپنی شخصیت پہ جب بھی سوچنا اپنے قد کو اپنے سائے سے بھی کم تر دیکھنا سنگ منزل استعارہ سنگ مرقد کا نہ ہو اپنے زندہ جسم کو ...

    مزید پڑھیے

    یہ بات تو نہیں ہے کہ میں کم سواد تھا

    یہ بات تو نہیں ہے کہ میں کم سواد تھا ٹوٹا ہوں اس بنا پہ کہ میں کج نہاد تھا الزام اپنی موت کا موسم پہ کیوں دھروں میرے بدن میں میرے لہو کا فساد تھا اب میں بھی جل کے راکھ ہوں میرے جہاز بھی کل میرا نام طارق ابن زیاد تھا ایماں بھی لاج رکھ نہ سکا میرے جھوٹ کی اپنے خدا پہ کتنا مجھے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3